جہانزیب راضی سے منقول
آج ایک نوجوان ان کی محفل میں آگیا ہے، کافی دیر سے تذبذب میں ہے اور پھر اچانک اٹھتا ہے اور سیدھا سید بادشاہ کے پاس جاکر اپنا خنجر نکالتا ہے اور ان کے قدموں میں ڈال دیتا ہے، ان کے پاؤں میں گر جاتا ہے اور ہاتھ جوڑ کر روتے ہوئے معافی مانگتا ہے کہ خدا کے لیے مجھے معاف کردیں میں نے سنا تھا کہ آپ گستاخِ رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم اور صحابہ رض ہیں۔ میں آپ کو قتل کرنے آیا تھا مگر یہاں آپ کی محفل میں بیٹھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ اتنا نرم دل اور دین سے محبت کرنے والا انسان کبھی بھی نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم اور صحابہ رض کا گستاخ نہیں ہوسکتا۔ میں اپنے ارادے پر شرمندہ ہوں، لوگوں نے مشورہ دیا کہ اس کو پولیس کے حوالے کردیں مگر سید بادشاہ نے اسے گلے لگایا اور دل سے معاف کردیا۔
یہ سید بادشاہ کوئی اور نہیں تھا یہ سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ تھے۔ ساری زندگی محلے کی اسی مسجد میں نماز پڑھتے رہے جہاں سے ان کو گستاخِ رسولؐ و صحابہ رض کہا جاتا تھا، جس مسجد کا امام کہتا تھا کہ اگر مودودی کی قبر پر گھاس اُگ جائے اور کوئی بکری وہ گھاس کھالے تو اس کا گوشت بھی اہلِ ایمان پر جائز نہیں ہے، وہی مودودی اسی مسجد میں اسی امام کے پیچھے نماز پڑھتا تھا اور جب کسی نے اعتراض اٹھایا تو جواب دیا ؛”میں نے جتنا دین کا مطالعہ کیا ہے وہاں کہیں نہیں لکھا کہ مودودی کو برا بھلا کہنے والے کے پیچھے نماز نہیں ہوتی۔”
وہ نوجوان جو 17 سال کی عمر میں ایک اخبار کا مدیر تھا جس نے محض 22 سال کی عمر میں "اسلام کا سرچشمہ قوت”، پھر 23 سال کی عمر میں متحدہ ہندوستان میں "الجہاد فی الاسلام” جیسی معرکۃ الآرا کتاب لکھ ڈالی۔ 20 سال کی عمر سے "ترجمان القرآن” جیسے رسالے کی اشاعت شروع کی اور پھر "تفہیم القرآن” جیسا شاہکار تخلیق کیا۔ جس نے 33 سال کی عمر میں دنیا میں "احیائے دین” کی اپنی نوعیت کی انوکھی تحریک شروع کی جو شاہ ولی اللہ چاہنے کے باوجود شروع نہ کرسکے تھے، جس نے 4 مرتبہ جیل کاٹی، ایک مرتبہ پھانسی کی سزا پائی جو بعد ازاں عمر قید میں تبدیل ہوئی جسکی وجہ "مسئلہ قادینیت” جیسی کتاب اور وقت کے جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنا تھا۔
وہ سید مودودی جنہوں نے تفہیم القرآن کو حتمی شکل دینے سے پہلے ساری دنیا کے ان تمام مقامات کو اپنی آنکھوں سے خود جاکر دیکھا جن کا ذکر قرآن نے کیا ہے یا وہ واقعات جہاں رونما ہوئے ہیں تاکہ قرآن کی اس کیفیت کو سمجھ سکیں۔
سید مودودی رحمۃ اللہ علیہ عالَم عجم کے وہ پہلے انسان تھے جنہیں "شاہ فیصل ایوارڈ "سے نوازا گیا اور "مدینہ یونیورسٹی” کے پہلے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں شامل کیا گیا۔ پاکستان کے قیام کے فوراً بعد جناح صاحب کی درخواست پر ریڈیو پاکستان پر "حقیقی اسلامی ریاست” کے موضوع پر ہفتہ وار گفتگو شروع کی۔
100 سے زائد کتابیں تصنیف کیں جن کا دنیا کی 75 زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے اور تفہیم القرآن جو صرف اردو زبان میں 40 لاکھ سے زیادہ چھپ کر لوگوں کے کتب خانوں اور دل کے نہاں خانوں میں جگہ بنا چکی ہے۔ وہ مولانا مودودی تفہیم االقرآن کے مقدمے میں لکھتے ہیں کہ "فہمِ قرآن کی ان ساری تدبیروں کے باوجود آدمی پوری طرح قرآن کی روح سے آشنا نہیں ہوپاتا جب تک عملاً وہ کام نہ کرے جس کے لیے قرآن آیا ہے۔ یہ محض نظریات یا خیالات کی کتاب نہیں ہے کہ آپ آرام دہ کرسی پر بیٹھ کر اسے پڑھیں اور اس کی ساری باتیں سمجھ آجائیں۔ اس نے آتے ہی ایک خاموش طبع اور نیک نہاد انسان کو گوشہ عزلت سے نکال کر خدا سے پھری ہوئی دنیا کے مقابلے میں لاکھڑا کیا۔ باطل کے خلاف اس سے آواز اٹھوائی اور وقت کے علمبردارانِ کو کفر و فسق و ضلالت سے لڑادیا۔ اب بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ سرے سے نزاعِ کفر و دین اور معرکہ اسلام و جاہلیت کے میدان میں قدم ہی نہ رکھیں اور اس کشمکش کی کسی منزل سے گزرنے کا آپ کو اتفاق ہی نہ ہوا ہو اور محض قرآن کے الفاظ پڑھ پڑھ کر اس کی ساری حقیقتیں آپ کے سامنے بے نقاب ہوجائیں۔”
وہ سید مودودی جو صرف قرآن سنا سنا کر اور اپنے علم کے جوہر ساری دنیا کو دکھا کر ایک پُرسکون زندگی گزار سکتا تھا کہ کویت کے سب سے بڑے بزنس ٹائیکون عبداللہ المطوع نے 1971 میں بالکل خالی چیک تک مولانا کے حوالے کردیا تھا مگر مولانا نے ایک فلم اسٹوڈیو خرید کر منصورہ بنادیا اور "جماعتِ اسلامی” جیسی عظیم الشان تحریک کی بنیاد صرف اسی لیے رکھی کہ ساری دنیا میں امامت و اقتدار آئمہ کفر وضلالت اور فساق و فجار کے ہاتھ سے چھین کر دنیا کے پاکیزہ نفوس کے ہاتھوں میں دی جائے۔ کہیں عبداللہ بن ابی سے ٹکرایا جائے کہیں وقت کے فرعونوں، نمرودوں اور ابوجہلوں کے مقابلے میں مظلوموں کا ساتھ دیا جائے اور قرآن کی اس مستقل کشمکش کو سمجھا جائے جو ایک کے بعد ایک چیلنج دیتا ہے۔
یہی وجہ تھی کہ سید مودودی ایک طرف دین کے مسائل بتارہے ہوتے تھے تو دوسری طرف لوگوں کے مسائل حل کروا رہے ہوتے تھے۔ ایک طرف ریاستِ مدینہ کے قیام کے اصول دنیا کو سکھا رہے ہوتے تھے تو دوسری طرف قراردادِ مقاصد کو آئینِ پاکستان کا حصہ بنانے کی تحریک چلارہے ہوتے تھے۔ ایک طرف انبیاء کی دعوت سمجھا رہے ہوتے تھے کہ وہ کس طرح رائے عامہ ہموار کرکے وقت کے ظالم حکمرانوں کے خلاف کھڑے ہو جاتے تھے تو دوسری طرف مارشل لا لگانے والوں کے جبر کے خلاف عوامی تحریک چلارہے ہوتے تھے اور اس کے نتیجے میں خود عتاب کا شکار ہورہے ہوتے تھے اور جب ایک طرف انسانیت کو شعبِ ابی طالب سنارہے ہوتے تھے تو دوسری طرف جیل کی کوٹھڑی میں پھانسی گھاٹ کے مجرموں کے ساتھ راتیں گزار رہے ہوتے تھے۔
آپ کے خیال میں مولانا مودودی کو دنیا کے بہترین ممالک کی طرف سے نیشنیلٹی کی آفرز نہیں ہوئی ہونگیں؟ بالکل ہوئی تھیں مگر سید بادشاہ نے صاف الفاظ میں فرمایا کہ "زندگی اور موت کے فیصلے زمینوں پر نہیں آسمانوں پر ہوتے ہیں ۔”
میں پچھلے کچھ دنوں سے مولانا کی شخصیت کو بہت مِس کررہا ہوں، سوچ رہا ہوں جب انسان دعوت کے میدانوں میں "گراس روٹ” پر نہیں اترتا، جب وہ مسلمان ممالک تک میں خدا کے نافرمانوں کے اقتدار کو دیکھتا ہے اور کنی کترا کر سکون سے اسلام کے نام پر چند کلیوں پر ہی قناعت کرجاتا ہے اور انسانیت کو علاجِ تنگی داماں دینے کے بجائے خود کو ہی برانڈ سمجھنے لگتا ہے تو پھر کہیں نہ کہیں اسلام کے ہی نام پر اس کے دل و دماغ میں ایک فخر کا گمان ہونے لگتا ہے۔
پھر دین کا کام کرنے والے اور نام لینے والے چاہے جبہ و دستار میں ہوں یا کوٹ پینٹ میں، کچی آبادی کی مسجد میں ہوں جہاں پسینے سے شرابور لوگ آکر بیٹھتے ہوں یا پھر ڈیفنس کے خوشبوں سے معطر اے سی ہالز میں بڑی بڑی گاڑیوں والوں کو دین سکھانے والے سب کا اپنا اسٹیٹس ہوتا ہے یہ عام سوال پوچھنے والے کو نجانے کیوں حقیر سمجھنے لگتے ہیں خود کو عقلِ کل اور دین کا ملک ریاض سمجھنے لگتے ہیں۔
معذرت کے ساتھ اس کی صرف ایک وجہ ہے کہ قرآن کے بڑے بڑے بھاشن دینے والوں کو یہی لگتا ہے کہ سارے کا سارا دین وہی ہے جو ان کے پاس ہے۔ انسان ترس رہا ہے، مسلمان تک دین سے بیزار ہیں اور وجہ یہ کہ کائنات ظلم کے نظام سے اَٹی ہوئی ہے مگر ان کے کان پر جوں نہیں رینگتی ہے، یہ عافیہ صدیقی کی بہن کے سامنے کچھ دیر خاموش بیٹھ کر چند آنسو بہا سکتے ہیں مگر لاکھوں کے مجمع میں اس مظلوم کا ذکر نہیں کرسکتے کیونکہ ان کا "اسلام اور اس کی دعوت” خطرے میں پڑ جائے گی جو شاید ان کے لیے ایفورڈ کرنا مشکل ہو۔
یہ میرے بے ربط خیالات ہیں ممکن ہے کسی کو اس سے اتفاق نہ ہو مگر میں کیا کروں کہ بچپن سے مولانا کو پڑھنے اور ان کی زندگی دیکھنے کے بعد نجانے کیوں سب ادھورا ادھورا سا لگتا ہے ۔ خدا سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حق کو حق دکھائے اور باطل کو باطل اور پھر استقامت کے ساتھ اس حق کے لیے کام کرنے والا بنادے آمین۔