گزشتہ چند برسوں میں دنیائے اردو ادب میں جن جواں سال قلمکاروں نے اپنی تحریروں سے ادبی حلقوں کو خاص طور پر اپنی طرف متوجہ کیا ہے ان میں ایک نام سلمان عبد الصمد کا بھی ہے۔”متن کے آس پاس” ڈاکٹر سلمان عبد الصمد، اسسٹنٹ پروفیسر شعبۂ اردو خواجہ بندہ نواز یونیورسٹی، گلبرگہ کے تنقیدی،تجزیاتی اور تاثراتی مضامین کا پہلا مجموعہ ہے۔اس میں مصنف کے دل کی باتیں اور خطۂ نوازشات کے علاوہ 17/ مضامین شامل ہیں. کتاب کا انتساب سلمان عبد الصمد نے ان مدیرانِ رسائل کے نام کیا ہے جنہوں نے ان کے مضامین کو شائع کرکے ان کو ادبی حلقوں میں متعارف کروانے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ سلمان عبد الصمد نے ” باتیں دل کی” عنوان کے تحت اپنے قلمی سفر کے آغاز پر روشنی ڈالی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ:
"میں نے اپنے مضامین میں چبائے ہوئے نوالے پر بھروسہ نہیں کیا ہے۔ چکی خود پیسی۔آٹا خود گوندھا۔آڑی ترچھی بنی یا گول،روٹی خود بنائی پھر ٹکرا توڑ کر نوالہ بنانے کی مشق بھی آپ اٹھائی۔”
(ص:7)
زیر تبصرہ کتاب کا باضابطہ طورپر آغاز ‘خسرو کا ہندوی کلام اور اشکالات’ کا تجزیاتی مطالعے سے ہوتا ہے۔ جس میں سلمان عبد الصمد نے امیر خسرؔو کے ہندوی کلام اور اشکالات کا بھرپور جائزہ لیا ہے۔ انہوں نے خسرو کے ہندوی کلام کے متعلق شمس الرحمن فاروقی کا قول نقل کیا ہےکہ:
"خسرو نے ‘غرۃالکمال’ میں اپنے ہندی کلام کی کمیت کے بارے میں صرف ‘جزوے چند’ کا فقرہ لکھا ہے۔ ان باتوں کے پیش نظر یہی کہنا پڑتا ہے کہ خسرو کا ہندوی کلام اس لیے باقی نہ رہا کہ وہ کچھ زیادہ کمیت کا نہ تھا،اور زیادہ تر تعفنن طبع کے لیے ہنگامی مواقع پر تصنیف ہوا تھا، اس لیے خسرو اسے چنداں اہمیت نہیں دیتے تھے”
(ص:13)
شمس الرحمن فاروقی کے اس اقتباس کا تجزیہ کرتے ہوئے سلمان عبد الصمد،شمس الرحمن فاروقی کے خیال سے اختلاف کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
"فاروقی صاحب کا تسلیم کرنا اپنی جگہ درست ہے کہ خسرو نے ہندوی میں بہت کم کہا ہے، لیکن اس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ وہ اپنے ہندوی کلام کو اہمیت نہیں دیتے تھے۔ بہت سے ادبا ایسے ہیں جنھوں نے کم لکھا ہے یا کم شاعری کی ہے۔کم شاعری کرنے یاکم لکھنے کا مطلب قطعا یہ نہیں ہو سکتا ہے کہ لکھنے والا لکھنے کو کمتر سمجھتا ہے۔ اس لیے راقم کا خیال یہ ہے کہ خسرو کے کلام کی اہمیت بہت زیادہ تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ ہندوی میں کم کلام کہتے تھے۔ پھر اس عہد میں ہندوی کا عام ماحول بھی تو نہیں تھا۔ اس لیے انہوں نے کم کہا ہے۔ ان کے کم کہنے کو کمتر کہنا کسی بھی طرح مناسب نہیں ہے۔”
(ایضا)
سلمان عبد الصمد نے زیر تبصرہ کتاب میں ولی’دہلوی'(معروف بہ ولی دکنی) دہلی آمد، سعد اللہ گلشن سے ملاقات،تعلقات کی نوعیت اور ان کی لسانی عظمت پر تفصیلی گفتگو کی ہے۔ان کا خیال ہے کہ:
"ولی کی شاعرانہ کرامت جہاں یہ ہے کہ انہوں نے نظم کو غزل میں مدغم کیا، وہیں انہوں نے زبان میں رنگ آمیزی بھی اور دکن میں ایک ایسی زبان کا ہیولٰی تیار کیا جس میں دکنی اثرات کم، شمالی احساسات زیادہ رچے بسے تھے۔ اس لیے یہ کہنا مبالغہ نہیں ہوگا کہ ولی جتنے دکنی تھے، اتنے ہی دہلوی یا شمالی بھی تھے۔ گویا ولی نے ایسی ادبی راہ پرسفر کیا جس پر ریختہ یا فارسی آمیز دکنی سنگِ میل لگے ہوئے تھے اور ان سنگ میلوں سے گزرنے کے بعد ایک ایسی منزل آئی جہاں سعد اللہ گلشن مقیم تھے۔ ان سے ان کی گفت و شیند ہوئی اور اسی دوران میاں گلشن نے ولی کو ریختہ اور فارسی کو ہم آہنگ کرنے کا مشورہ دیا۔ جب انہوں نے اس مشورے پر عمل کیا تو بڑے بڑے شعرا نے ولی کا تتبع کیا۔ اس طرح پیر میاں گلشن کے مرید ولی خود ادبی پیر ہوگئے اور ان کے ہاتھ پر قدآور غزلیہ شاعروں نے ادبی بیعت کی۔”
(ص:34)
انہوں نے زیر تبصرہ کتاب میں شمس الرحمن فاروقی کی شہرۂ آفاق کتاب” شعر شور انگیز” پر روشنی ڈالی ہے۔ اور اس کے اجمالی جائزہ کے علاوہ شمس الرحمن فاروقی کی اس شاہکار کاوش کا بھرپور احاطہ کیا ہے۔ سلمان عبد الصمد رقمطراز ہیں کہ:
"شعر شور انگیز” کے مطالعے کے دوران جہاں ایک حساس قاری ” اسلوبِ انتقادیات” کی ایک نئی دنیا میں پہنچ جاتا ہے، وہیں اس کے ذہن میں چند سوالات بھی پیدا ہوتے ہیں۔ چوں کہ تشریح و تنقید کے باب میں(دلائل کے ساتھ ساتھ) نکتہ رسی اور باریک بینی کی حیثیت بھی مسلم ہے۔ اس لیے راقم نے فاروقی صاحب کی نکتہ رسی پر غور کیا تو بہت کچھ سیکھا،سمجھا بار بار پڑھا(پھر بھی بہت کچھ سمجھنے سے رہ گیا)۔ ان کے عالمانہ رویوں سے سیکھنے کے بعد راقم نے اس کتاب پر فکری نہ سہی ‘تاثراتی سوالات’ قائم کیے(ضروری نہیں کہ ان سوالوں کی کوئی علمی حیثیت بھی ہو، البتہ سوال تو آخر سوال ہوتاہے)۔”
(ص:38)
سلمان عبد الصمد کے مذکورہ بالا اقتباس پر غور کرنے اور بیس صفحات میں پھیلے ہوئے اس مضمون سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ انہوں اپنی تحریر کے ذریعہ نہایت تلاش وجستجو اور تحقیق کے بعد "شعر شور انگیز”کی ایک نئی تصویر پیش کی ہے، جس میں تحقیق کا سودا رکھنے والوں کے لیے بہت سے اشارے موجود ہیں، جن پرمزید کام کرنے کی ضرورت اور گنجائش ہے۔
سلمان عبد الصمد نے زیر تبصرہ کتاب میں اقبال کا تصور فرد اور سماج کا احاطہ کیا ہے اس میں وہ اقبال کے تصور خودی کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
"اقبال کی خودی نہ تصوف کے فنائی معاملات کی مبلغ ہے اور نہ رہبانیت کی۔ فنا فی اللہ اور تعلق مع اللہ انفرادی حیثیت سے غلط نہیں،تاہم سماجی تانے بانے سے کہیں نہ کہیں اس کا رشتہ ٹوٹتا نظر آتا ہے اور معاملہ ایک فرد کا ہوجاتا ہے۔ لیکن اقبال کی خودی ہر ایک دل میں ارتفاعِ انسانیت کے دیے روشن کرتے ہوئے سماج میں مدغم ہو جاتی ہے۔ سماج سے جڑنے کے بعد گفتار فقط گفتار کا غازی ہونا ہی مستحسن نہیں بلکہ اعمال و افعال کا پیکر بننا بھی ضروری ہوتا ہے۔”
(ص:59)
کتاب میں سعادت حسن منٹو کی افسانہ نگاری پر "منٹو اور تضادات ‘ نیا قانون’ کے عنوان سے وہ لکھتے ہیں کہ:
"منٹو کے چند شاہ کار افسانوں میں ایک کامیاب افسانہ "نیا قانون” بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔ عموما اس کی کامیابی کے پیچھے یہ وجہ بتائی جاتی ہے کہ اس کا مرکزی کردار منگو کو چوان ہندستانی سادہ لوح عوام کا ہی نہیں بلکہ غلام اور استحصال زدہ پورے عالمی معاشرے کا نمائندہ ہے اور عوامی فلاح پر مبنی قوانین کے پس پردہ ہونے والے کھیل پر تیکھا طنزبھی ہے۔”
(ص:76)
سلمان عبد الصمد اپنی کتاب میں ” تین اسلوبیاتی نقادوں پر ایک نظر” کے موضوع پر اسلوبیاتی تنقید کے آغاز و ارتقاء اور اس کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
"اردو میں اسلوب کے مطالعے کا معاملہ نیا نہیں ہے۔کیوں کہ تذکروں میں بھی شعراء کے انداز بیان اور طرز تحریر کی طرف اشارے مل جاتے ہیں۔”
(ص:86)
سلمان عبد الصمد نے اسلوبیاتی تنقید پر عالمانہ انداز میں جو گفتگو کی ہے وہ واقعی لائق تحسین ہے کیوں کہ اسلوب کی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ کسی ادیب یا شاعر کی انفرادیت جاننے کے لیے ہمیں بالآخر اس کے اسلوب کا ہی سہارا لینا پڑتا ہے، ورنہ موضوعات تو کسی کی ملکیت نہیں ہوتے۔ اس طرح زبان ایک طرف بہ طورِ ذریعۂ اظہار ادب سے اپنا رشتہ استوار کرتی ہے تو دوسری طرف وہ لسانیات کے لیے موادو موضوع فراہم کرتی ہے۔ لسانیات زبان کے مطالعے اور تجزیے کا کام اپنے اصولوں اور طریقوں کے مطابق سر انجام دیتی ہے۔ یہی اصول اور طریقے ادبی زبان کے مطالعے اور تجزیے میں بھی بروئے عمل لائے جاتے ہیں۔ چوں کہ ادبی و تخلیقی زبان کا یہ مطالعہ قطعیت کے ساتھ منظم طور پر کیا جاتا ہے، اور اس مطالعے میں سائنسی اور معروضی انداز اختیار کیا جاتا ہے ، نیز اس کی اپنی نظری بنیادیں اور عملی ضابطے ہیں،اس لیے اس کی حیثیت ایک باقاعدہ شعبۂ علم کی ہو گئی ہے جسے ’اسلوبیات‘ کہتے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب میں سلمان عبد الصمد نے خسرو کا ہندوی کلام اور اشکالات، ولی’ دہلوی’ کی لسانی عظمت، ‘شعر شور انگیز ‘ پر سوالات، اقبال کا تصور فرد اور سماج، مجالس النساء کی نئی قرأت، منٹو اور تضادات ‘،نیا قانون، تین اسلوبیاتی نقادوں پر ایک نظر، کے علاوہ غیر مطبوعہ ناول ” دوست” کا مقدمہ، ناول ” دھوپ چھاؤں ” کا تجزیہ، ‘اماوس میں خواب ‘ کا موضوع اور اسلوب، "تین لڑکیاں ایک کہانی” کا تنقیدی مطالعہ، جوگندر پال کے افسانے، مفتی کا نفسیاتی رویہ اور ‘ ماتھے کا تل’ مکتوباتِ اکبر کا تنقیدی جائزہ، اردو نفسیاتی تنقید پر ایک نظر، نئی کتابیں، کے: چند باتیں، اظہار و ترسیل، علاقائی تناظر اور صحافت جیسے اہم موضوعات کا انہوں نے نہایت ہی سنجیدگی کے ساتھ معروضی انداز میں جائزہ پیش کیا ہے۔ ان مضامین کے مطالعہ سے سلمان عبد الصمد کے افکار و نظریات سے قاری بخوبی واقف ہوجاتا ہے۔ان مضامین میں عبد الصمد کے ذریعہ پیش کیے گئے خیالات سے اختلاف ہو سکتے ہیں۔لیکن اس سے ان تحریروں کی اہمیت کم نہیں ہوتی۔ یہ تحریریں ہمیں اکستاتی، چھیڑتی اور کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہیں۔کتاب کی ایک خوبی یہ ہے کہ ہر مضمون کے آخر میں’ کتابیات‘ بھی شامل ہے،جو مصنف کی تحقیقی کاوش اورژرف نگاہی کی حکایت بیان کرتی ہے۔ہمیں اُمید ہے کہ کے ادبی حلقوں میں تنقید اور تحقیق کی اہمیت کو سمجھنے میں یہ کتاب سنگ میل ثابت ہوگی اور اسے ادبی حلقوں میں خاطر خواہ پذیرائی حاصل ہوگی۔ زیر تبصرہ کتاب کا سروق خوبصورت ہے، پہلے فلیپ پر سلمان عبد الصمد کی بُو قَلَمُونِی کے اعتراف میں پروفیسر عبد البرکات، مسعود بیگ، دوسرے فیلپ پر مشتاق احمد نوری اور عشرت ظہیر کی تحریریں دیکھی جاسکتی ہیں۔کتاب کے پچھلے حصے پر ” متن کے آس پاس ” کی خوبیوں پر پروفیسر مرزا خلیل احمد بیگ، پروفیسر عتیق اللہ اور ڈاکٹر جاوید رحمانی کے تاثرات درج ہیں۔
ڈاکٹر سلمان عبد الصمد کی یہ تصنیف 232 صفحات پر مشتمل ہے اور مرکزی پبلیکیشنز، نئی دہلی سے 2023 میں شائع ہوئی ہے۔ کتاب کی اشاعت کے لیے سلمان عبد الصمد کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ کتاب کی قیمت 120؍روپئے ہے۔ کتاب حاصل کرنے کے لیے۔ مصنف (موبائل نمبر: 9810318692) سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
تبصرہ: اسلم رحمانی
شعبۂ اردو نتیشور کالج، مظفرپور