بلڈوزر بابا! بلڈوزر ماما! مانو بات عدالت کی۔۔۔

اے رہبر ملک وقوم بتا یہ
کس کا لہو ہے کون مرا

بھارت میں کچھ سالوں سےگھروں پر بلڈوزر چلائے جارہیےہیں۔ بلڈوزر کی سیاست گرما گرم ہے۔گھروں پر بلڈوزر چلانے کو سیاسی Symbol کے طور پر رکھا گیا ۔کبھی بلڈوزر بابا اس پر سوار ہوکر آئے اور گدی نشین ہوگئے تو پھر بلڈوزر ماما کیوں پیچھے رہتےوہ بھی سیاسی روٹی سینک کر ڈکار گئے۔
سپریم کورٹ نے اپنے حالیہ فیصلے میں بڑی تفصیل سے ان گھر گرانےوالوں کے بارے میں بہت کچھ لکھا ہے۔سرکاری افسران نے عدالت کے کس حکم نامے پر عمل کیا ؟کس کی مرضی اور حکم سے چلائے گئے مکینوں کے مکانوں پر بلڈوزر!۔
چیف جسٹس نے کہا کہ گھر ملزم کا ہو یا مجرم کا اس گھر میں اس کے ماں باپ، عورت بچے رہتے ہیں۔
گھروں کو اجاڑنے کی سبھیتا نہ راج دھرم ہوسکتی ہے نہ سکیولر ملک کا آئین ،نہ فرد سے نہ انتقامی کارروائ۔۔بلڈوزر تو بیچارہ مشین ہے وہ تو تعنیرات Construction کے لیے گڑھے کھودتا ہے۔اصل ہاتھ تو اس کو اشارہ دینے والے وہ بڑے عبقری لمبے ہاتھ ہیں جو بہت تکبر اور گھمنڈ والے ہیں.وہ جو کبھی اپنی بپتا سنا کر سب کے سامنے پھپھپک پھپھپک کر روپڑتا اور گمچھے میں اپنے آنسو جمع کرتا دوسرے کے درد کو کیا جانے۔
جاوید کے گھر پر بلڈوزر چلتے ہوں یا سیکڑوں بے گناہ مکینوں کے گھروں پر۔گھرملزم کی بیوی کے نام پر ہو یا باپ کے نام پر۔سب کادرد ایک جیسا ہے۔ اجتماعی سزا میں ملزمین کے گھر کے معصوم بھی ہیں اور ان کے بیمار بوڑھے والدین بھی۔ ان سب کو کیسے سزا دی جاسکتی ہے۔ کوئ ہے ان کی بپتا سننے والا۔کوئی ان کو Between camera لانے والا۔میڈیا جو ایک ایکٹر کی خودکشی پر رات دن فکر مندی سے کوریج دیتا تھا کیا وہ اب سپریم کورٹ کے بلڈوزر مخالف فیصلے پر کیسے خاموش بیٹھا ہے گویا اس نے وہ بے گناہوں کے گھروں پر بلڈوزر چلتے دکھائے ہی نہیں تھے ۔

بات بڑوں کی ہو یا بے آسرا غریبوں کی ،دل تو سب کے ایک سے ہیں ۔ہاں کرورتا (ظلم واستبداد)،گھمنڈ اور کرسی کا نشہ جب سر چڑھ کر بولتا ہے تو پھر تاریخ بن جاتا ہے ۔

سنہرے رنگ کی کرسی پہ ناز مت کیجیے

خدا کمین کو بھی سرفراز کرتا ہے

یہ طے ہے کہ ازل سے رب دو جہاں

حرم ذادے کی رسی دراز کرتا ہے

سپریم کورٹ کے کل کے فیصلے نے بلڈوزر چلائے گئے گھروں کے بے گناہ مکینوں کے زخموں پر مرہم رکھا ہے۔اب اگر ان افسران اور ان کارندوں کی بھی گو شمالی سرعت کے ساتھ ہو جائے جو چائے سے زیادہ کیتلی گرم کی مصداق تھے۔
امید کہ اب بابا ،ماما کچھ سبق لیں گے اور ان کی حمایت کرنے والے اپنے دامن میں جھانکیں گے۔اپنا محاسبہ کریں گے اور انصاف کریں گے۔

ازقلم: عبدالعظیم رحمانی ملکاپوری
9224599910

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے