شیخ الاسلام حضرتِ اقدس مولانا سید حسین احمد صاحب مدنی رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی کے آخری لمحات، اتبّاع سُنّت وجذبۂ خدمتِ دین

شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین مدنی رح کی زندگی بڑی جامع زندگی تھی ، ان کی زندگی کا وہ حصہ جو لوگوں کے سامنے تھا اور زندگی کے وہ لمحات جو گھر کی چار دیواری میں تھے ان میں اختلاف نھیں تھا ، یکسانیت تھی اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ان کے رگ و ریشے میں پیوست تھی ۔ اگر انسان حدیث کا پڑھا ہوا نھیں ھے اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے واقف نھیں ھے کسی چیز میں ، تو حضرت کے عمل کو دیکھ کر یہ باور اور یقین کرتا تھا کہ سنت یھی ھے ۔ اس لئے کہ ھر آدمی یہ جانتا تھا کہ اس شخص کی زندگی کا کوئی عمل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقۂ ھدایت سے ھٹا ھوا نھیں ۔
پھر یہ صرف باھر کی زندگی نھیں ۔ گھر کے اندر کی زندگی بھی حضرت کی بالکل اسی کے مطابق تھی ۔ میں حضرت کے بالکل مرض وفات میں حضرت کے پاس بیٹھا ھوا تھا ۔ چونکہ حضرت کا معمول عام لوگوں کی طرح یا مشائخ کی طرح یہ نھیں تھا کہ اپنی اولاد اور اھلِ خانہ سے ھٹے کھچے ھوئے رھتے ، بلکہ گھر میں تشریف لے جاتے تھے تو اھل وعیال کیساتھ اس طرح کھل کے ملتے تھے جیسا ایک بھترین صاحبِ خانہ اھلِ خانہ کیساتھ رہتا ہے ۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور آپ کا تعامل اھلِ خانہ کے ساتھ جو لوگ حدیث کے پڑھنے والے ھیں وہ جانتے ھیں ۔ اس وقت علم نھیں تھا ، نھیں سمجھتے تھے ۔ لیکن اب جب حدیث کی روشنی میں حضرت کی زندگی کو دیکھتے ھیں تو یہ محسوس ھوتا ھے کہ حضرت کی یہ زندگی بالکل اس حدیث کے مطابق تھی ۔ اور نبی کریم علیہ الصلوٰة والسلام کی زندگی کے مطابق اپنی زندگی گزارتے تھے ۔ میں حضرت کے ساتھ بیٹھا ھوا تھا اور بھی بچے تھے ۔ باھر سے کسی نے آکر ایک خط دیا ۔ حضرت نے اس کو کھولا تو وہ خط عربی میں تھا ۔ حضرت نے پڑھا ، مسکرائے اور اس خط کو تکیہ کے نیچے رکھا ۔ میں نے پوچھا کہ یہ خط کس کا تھا ابا جی ؟ فرمایا کہ تیرے چچا کا تھا ، مدینہ منورہ سے ۔ میں پوچھا کہ کیا لکھا ہے انھوں نے ؟ (میں عربی نھیں جانتا تھا ، فارسی پڑھتا تھا) فرمانے لگے کہ یہ لکھا ھے کہ : ھمارا اصل وطن مدینہ منورہ ھے ( یہ لوگ اپنے والد کو میاں کہا کرتے تھے ) میاں نے مدینہ منورہ کو چھوڑا ، یھاں (ھندوستان میں) مکان بنایا ھم لوگ یھیں آباد ھوئے ۔ ھمارے خاندان کے اتنے لوگ جنت البقیع کے پیوند بن گئے ۔ یھاں ھمارا وطن ھے ، آپ نے اب تک تحریکات میں حصہ لیا ، تعلیم لی ، اب آپ بیمار ھیں اپنے اھل وعیال کیساتھ مدینہ منورہ آجائیے ۔ میں خصوصی طیارہ اپنے بیٹے حبیب کو لے کر بھیجتا ھوں وہ آپ سب کولے کر آجائے گا ۔”
میں 1955ء میں حضرت والد صاحب کے ساتھ حج پر جا چکا تھا ۔ مدینہ منورہ کو دیکھ چکا تھا ، شوق تھا میں نے بڑی خوشی کیساتھ کہا : ابا جی ! چلئے ۔”حضرت پھر مسکرائے اور بات ختم ہوگئی ۔ کیونکہ ضعف بہت ھوگیا تھا اس لئے دو دن کے بعد حضرت نے آھستہ آھستہ عربی کے اندر جواب لکھا ۔اتفاق سے اس وقت بھی میں پہنچا ۔ مجھ سے فرمایا : یہ خط لیجاکر قاری صاحب کو دے دو ۔ خط لے جاکر تھوڑی دیر کے بعد میں پھر حضرت کے پاس آیا ۔ میں نے کہا : اباجی ! آپ نے کیا لکھا ؟ فرمایا : یہ لکھا ھے کہ ھم ھندوستان میں رہ کر اسلام کی جو خدمت کرسکتے ھیں وھاں رہ کر نھیں کرسکتے ۔”
یہ وہ لوگ تھے اور امت محمدیہ کا یہ وہ طبقہ ھے جس نے اپنی زندگی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کی خدمت کیلئے وقف کردیا ۔ اس آخری وقت میں بھی یہ اھتمام ھے کہ وہ امانت محمدیہ ، علم اور دین جو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کی گردن پر ڈالا تھا اور یہ فرمایا تھا کہ یہ امانت ھے : فلیبلغ الشاھد الغائب…اس امانت کو لے کر بیٹھنا نھیں ھے ۔ بلکہ جو لوگ براہ راست مجھ سے اس امانت کو لے رھے ھیں یہ ان کی گردنوں پر امانت ھے ، وھاں تک پھنچائیں جو آج میرے سامنے نھیں ھیں ۔
______________

از قلم : جانشینِ شیخ الاسلام حضرتِ اقدس مولانا سید ارشد مدنی صاحب دامت برکاتھم العالیہ ،صدر جمعیۃ علماء ھند
واستاذ حدیث وصدرالمدرسین دارالعلوم دیوبند

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے