سورۃ یونس: ایک مختصر تعارف

اس مکی سورۃ کا نام حسب دستور محض علامت کے طور پر آیت 98 سے لیا گیا ہے۔ جس میں اشارتاً حضرت یونس علیہ السلام کا ذکر آیا ہے، سورہ کا موضوع بحث حضرت یونس ع کا قصہ نہیں ہے۔
روایات سے معلوم ہوتاہے اور نفس مضمون سے تائید بھی ہوتی ہے کہ یہ پوری سورۃ مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی۔ سلسلہ کلام پر غور کرنے سے صاف محسوس ہوجاتا ہے کہ یہ مختلف تقریروں یا مختلف مواقع پر اُتری ہوئی آیتوں کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ شروع سے آخر تک ایک مربوط تقریر ہے جو بیک وقت نازل ہوئی ہوگی اور مضمون کلام اس بات پر صریح دلالت کررہا ہے کہ یہ مکی دور کا کلام ہے۔ زمانہ نزول کے متعلق کوئی روایت ہمیں نہیں ملی۔ لیکن مضمون سے ایسا ہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سورۃ زمانہ قیام مکہ کے آخری دور میں نازل ہوئی ، کیونکہ اس کا اندازِ کلام واضح ہے۔ مخالفین دعوت کی طرف سے مزاحمت پوری شدت اختیار کرچکی ہے۔ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور پیروان نبی { آپ پر ایمان لانے والوں} کو اپنے درمیان برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں ، ان سے اب یہ اُمید باقی نہیں رہی ہے کہ تفہیم و تلقین سے راہ راست پر آجائیں گے ، اور اب انھیں اس انجام سے خبردار کرنے کا موقع آگیا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری اور قطعی طور پر رد کردینے کی صورت میں انھیں لازماً دیکھنا ہوگا ، موضوع تقریر ، دعوت ، فہمائش اور تنبیہ ہے۔ کلام کا آغاز اس طرح ہوتا ہے کہ لوگ پیغام نبوت پیش کرنے پر حیران ہیں اور اسے خواہ مخواہ ساحری کا الزام دے رہے ہیں، حالانکہ جو بات وہ پیش کررہے ہیں اس میں کوئی چیز بھی نہ تو عجیب ہے اور نہ سحر و کہانت ہی سے تعلق رکھتی ہے۔ وہ تو دو اہم حقیقتوں سے تم کو آگاہ کررہے ہیں۔ ایک یہ کہ جو خدا اس کائنات کا خالق ہے اور اس کا انتظام عملاً چلا رہا ہے صرف وہی تمہارا مالک و آقا ہے اور تنہا اسی کا یہ حق ہے کہ تم اس کی بندگی کرو ، دوسرے یہ کہ موجودہ دنیوی زندگی کے بعد زندگی کا ایک دوسرا دور آنے والا ہے جس میں تم دوبارہ پیدا کئے جاؤ گے۔ اپنی موجودہ زندگی کے پورے کارنامہ کا حساب دو گے اور اس بنیادی سوال پر جزا یا سزا پاؤ گے کہ تم نے اسی خدا کو اپنا آقا مان کر اس کے منشاء کے مطابق نیک رویہ اختیار کیا یا اس کے خلاف عمل کرتے رہے۔ یہ دونوں حقیقتیں جو تمہارے سامنے ہے بجائے خود امر واقعی ہیں خواہ تم مانو یا نہ مانو وہ تمہیں دعوت دیتے ہیں کہ تم انھیں مان لو اور اپنی زندگی کو ان کے مطابق بنالو ، ان کی یہ دعوت اگر تم قبول کرو گے تو تمہارا اپنا انجام بہتر ہوگا ورنہ خود ہی بُرا نتیجہ دیکھوگے۔ (تفہیم القرآن از حضرت مودودی رحمت اللہ علیہ)

(مشرکین مکہ) تمام شعبہ ہائے حیات کے لئے الگ الگ خداؤں کے قائل تھے۔ ان سے پوچھا جارہا ہے کہ یہ بت جن کو تم نے خدا بنا رکھا ہے آخر ان کے خدا ہونے کی تمہارے پاس کوئی دلیل بھی ہے۔ بھلا یہ بتاؤ اس عالم میں اَن گنت چیزیں ہیں بڑی بھی اور چھوٹی بھی ، گراں بھی، ارزاں بھی ، مفید بھی ، مضر بھی ، خوبصورت بھی بدصورت بھی ، تم ہی کہو ان میں سے کوئی ایک چیز بھی ایسی ہے جس کو تمہارے اِن (خود ساختہ) خداؤں نے پیدا کیا ہو ، چلو یہ نہ سہی ہم تم سے یہ پوچھتے ہیں کہ تمہاری بقاء اور سلامتی کیلئے سینکڑوں اشیاء موجود ہیں۔ پانی ، ہوا ، روشنی ، اناج ، پھل ، کھانے اور سواری کے حیوانات تم یہ بتاؤ کیا ان میں سے بھی کوئی ایسی چیز ہے جس کو تمہارے ان دیوتاؤں نے پیدا کیا ہو ، اگر یہ بھی ان کی تخلیق نہیں تو یہ کہو تمہیں جو دیکھنے کو آنکھیں، سننے کو کان ، بولنے کو زبان ، سمجھنے کو عقل اور دیگر کئی قوتیں دی گئی ہیں۔ کیا ان میں بھی کوئی قوت ان کی عطا کردہ ہے ؟ چلو اسے بھی رہنے دو تم اپنی زندگی عزت و آرام اور امن و عافیت سے بسر کرنے کیلئے کسی راہنما کی رہنمائی کے محتاج ہو جو اشیاء کے حسن و قبح سے تمہیں آگاہ کرے۔ تمہیں تمہارے نفع و نقصان سے خبردار کرے۔ تمہارے لئے ایسے قانون بنائے جو عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرسکیں۔ تمہارے ان گونگے اور بہرے خداؤں نے کبھی اس معاملہ میں بھی تمہاری رہنمائی کی ہے۔ اگر ان تمام سوالات کا جواب تمہارے نزدیک بھی نفی میں ہے تو عقل و خرد کے دعویدارو ! پھر تم ان کی خدائی پر کیوں ایمان لاتے ہو۔ کتنا مؤثر اور دلنشین انداز بیان ہے کہ دل کی گہرائیوں میں اُترتا چلا جاتا ہے۔ (معبودان باطل کی اچھی طرح ضرب کاری کے بعد مزید دلائل کی طرف نشاندہی کی جارہی ہے) فرمایا کہ تمہارا وہی سچا خدا ہے جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا جس نے آفتاب و مہتاب کی قندیلیں فروزاں کرکے شب ہستی کو منور کردیا جس کے حکم سے گردش لیل و نہار کا سلسلہ جاری ہے۔ جس کی قدرت و حکمت ، جس کی ہمہ دانی اور ہمہ بینی کے آثار تمہیں اپنے گرد و پیش نظر آرہے ہیں (ایک اور تجربہ سے توحید باری تعالیٰ کو سمجھایا جارہا ہے) اگر اب بھی اس کو نہیں پہچان سکتے تو سچ بتاؤ کبھی تمہیں کسی بحری سفر پر جانے کا اتفاق ہوا۔ تمہاری کشتی سطح آب پر آہستہ آہستہ چلی جارہی ہو۔ اچانک مطلع مکدر ہوگیا ہو ، بادل امڈ آئے ہوں۔ تیز آندھی چلنے لگی ہو اور سمندر کی خونخوار موجیں منہ کھولے تمہیں اور تمہاری کشتی کو نگلنے کے لئے بار بار آگے بڑھ رہی ہوں۔ تمہارے بچ نکلنے کی ساری اُمیدیں ختم ہوچکی ہوں تم نے اپنے معبودوں کو بار بار پکارا ہو اور کوئی بھی تمہاری خبر لینے نہ آیا ہو۔ جب ہر طرف موت ہی موت دکھائی دینے لگی ہو۔ سچ بتاؤ کیا اس وقت کسی کا تمہیں خیال آیا تھا۔ کسی کی چوکھٹ پر بیساختہ تمہاری جبین نیاز جھکی تھی۔ ان کربناک لمحوں میں تم نے کسی کے ساتھ صدق و وفا کا پیماں باندھا تھا اور پھر کسی کی رحمت نے آگے بڑھ کر تمہاری ڈوبتی ہوئی کشتی کو سہارا دے کر بچالیا تھا ، وہ کون تھا ؟ معلوم ہے تمہیں۔ یہ وہی تمہارا خداوند وہی تمہارا معبودِ برحق تھا جس کو مان کر پھر تم اس سے روگردانی کرنے لگے۔ (ضیاء القرآن از حضرت پیر محمد کرم شاہ رحمت اللہ علیہ) ۔ علاوہ ازیں اس (سورہ یونس) میں جو مباحث آئے ہیں اسے مختصر طور پر تحریر کیاجاتا ہے۔
ان غلط فہمیوں کا ازالہ اور ان غفلتوں پر تنبیہ جو لوگوں کو توحید اور آخرت کا عقیدہ تسلیم کرنے سے مانع ہورہی تھیں (اور ہمیشہ ہوا کرتی ہیں) ان شبہات اور اعتراضات کا جواب جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور آپ کے لائے ہوئے پیغام کے بارے میں پیش کئے جاتے تھے۔
دوسری زندگی میں جو کچھ پیش آنے والا ہے اس کی پیشگی خبر ، تاکہ انسان اس سے ہوشیار ہوکر اپنے آج کے طرز عمل کو درست کرلے اور بعد میں پچھتانے کی نوبت نہ آئے۔ اس امر پر تنبیہ کہ دنیا کی موجودہ زندگی دراصل امتحان کی زندگی ہے اور اس امتحان کیلئے تمہارے پاس بس اتنی مہلت ہے جب تک تم اس دنیا میں سانس لے رہو۔ اس وقت کو اگر تم ضائع کردیا اور نبی کی ہدایات قبول کرکے امتحان کی کامیابی کا سامان نہ کیا تو پھر کوئی دوسرا موقع تمہیں ملتا نہیں ہے۔ اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا آنا اور اس قرآن کے ذریعہ تم کو علم حقیقت کا بہم پہنچایا جانا وہ بہترین اور ایک ہی موقع ہے جو تمہیں مل رہا ہے۔ اس سے فائدہ نہ اُٹھاؤ گے تو بعد کی ابدی زندگی میں ہمیشہ ہمیشہ پچھتاؤگے۔ ان کھلی کھلی جہالتوں اور ضلالتوں پر اشارہ جو لوگوں کی زندگی میں صرف اس وجہ سے پائی جارہی تھیں کہ وہ خدائی ہدایت کے بغیر جی رہے تھے۔ اس سلسلہ میں نوح علیہ السلام کا قصہ مختصر اور موسیٰ علیہ السلام کا قصہ تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے جس سے چار باتیں ذہن نشین کرنی مطلوب ہیں۔
اول یہ کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو معاملہ تم لوگ کررہے ہو وہ اس سے ملتا جلتا ہے جو نوح اور موسیٰ علیہما السلام کے ساتھ تمہارے پیش رو کرچکے ہیں اور یقین رکھو کہ اس طرز عمل کا جو انجام وہ دیکھ چکے ہیں وہی تمہیں بھی دیکھنا پڑے گا۔
دوم یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں کو آج جس بے بسی و کمزوری کے حال میں تم دیکھ رہے ہو اس سے کہیں یہ نہ سمجھ لینا کہ صورت حال ہمیشہ یہی رہے گی۔ تمہیں خبر نہیں ہے کہ ان لوگوں کی پشت پر وہی خدا ہے جو موسیٰ علیہ السلام و ہارون علیہ السلام کی پشت پر تھا اور وہ ایسے طریقہ سے حالات کی بساط اُلٹ دیتا ہے جس تک کسی کی نگاہ نہیں پہنچ سکتی۔ سوم یہ کہ سنبھلنے کیلئے جو مہلت خدائے تعالیٰ تمہیں دے رہا ہے اسے اگر تم نے ضائع کردیا اور پھر فرعون کی طرح خدا کی پکڑ میں آجانے کے بعد میں آخری لمحہ پر توبہ کی تو معاف نہیں کئے جاؤ گے۔ چہارم یہ کہ جو لوگ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے تھے وہ مخالف ماحول کی انتہائی شدت اور اس کے مقابلہ میں اپنی بیچارگی دیکھ کر مایوس نہ ہوں اور انھیں معلوم ہو کہ ان حالات میں ان کو کس طرح کام کرنا چاہئے۔ نیز وہ اس امر پر بھی متنبہ ہوجائیں کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کو اس حالت سے نکال دے تو کہیں وہ اس روش پر نہ چل پڑیں جو بنی اسرائیل نے مصر سے نجات پاکر اختیار کی۔ آخر میں اعلان کیا گیا ہے کہ یہ عقیدہ اور یہ مسلک ہے جس پر چلنے کی اللہ نے اپنے پیغمبر کو ہدایت کی ہے۔ اس میں قطعاً کوئی ترمیم نہیں کی جاسکتی ، جو اسے قبول کرے گا وہ اپنا بھلا کرے گا اور جو اس کو چھوڑ کر غلط راہوں میں بھٹکے گا وہ اپنا ہی کچھ بگاڑے گا۔ (تفہیم القرآن)
ان اساسی مضامین کے علاوہ علم و حکمت کے کئی دمکتے ہوئے موتی ہیں جو اس سورۃ کی ردائے نور میں جڑے ہوئے ہیں۔ آپ اس کا مطالعہ کریں گے تو ان کا حسن لازوال خود ہی آپ کے دامن توجہ کو اپنی طرف کھینچ لے گا۔ (اقتباس از ضیاء القرآن)
محترم قارئین کرام !مذکورہ بالا سورت میں ہر طرح سے
اس بات کو سجھایا گیا ہیکہ
توحید باری تعالی ایک اٹل حقیقت ہے ،جسے کوئ عقل مند انسان جھٹلا نہیں سکتا!
لہذا خود ساختہ، معبودان باطل کی پرستش چھوڑ کر ایک حقیقی مالک کی بندگی اختیار کرو جو تمہاری ہر ضرورت کا سامان مہیا کر رکھا ہے، جسکے بغیر تمہاری زندگی محال ہے۔
بین السطور مشرکین مکہ کو یہ تنبیہ کہ دیکھو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو جھٹلاکر تم ہی اپنا نقصان اور خسارہ اٹھاو گے لہذا سابق قوموں کی ہلاکت وبربادی کے واقعات سے عبرت پکڑو اور اپنے کو سیدھے راستے پر ڈالدو جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں بتارہے ہیں؛ مختصر یہ کہ ہر انسان کے لیے ضروری ہیکہ؛ وہ دنیا کی ذلت اور آخرت کی رسوائ سے بچنا چاہتا ہو تو ، چاہیے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت چھوڑ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا ہادی ورہنما تسلیم کرتے ہوے زندگی بسر کروگے تو اس میں تمہاری ہی بھلائ ہے۔۔۔۔۔۔!
آخری بات یہ کہ مکی دور کے احوال اہل ایمان کے لیے اپنے اندر ہمت وحوصلہ پیدا کر نے
اور استقامت فی الدین کا اہم سبق دے رہے ہیں۔

ازقلم: محمد عبدالحفیظ اسلامی
سینئر کالم نگار حیدرآباد 9849099228

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے