تحریر: محمد دلشاد قاسمی
ہمارے ملک ہندوستان کے اندر 95 فیصد لوگ دعوت وتبلیغ کی بدولت ہی حلقہ بگوش اسلام ہوئے لیکن ابھی چند سالوں سے ہمارے یہاں دعوت کا کام رک سا گیا ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنی مدعو قوم کی نفسیات کو نہیں سمجھا اس لئے ہماری دعوت بہت موثر نہیں ہو رہی ہے .
ہمارے یہاں جو دعوت کے طریقے پائے جاتے ہیں ایک نظر ان پر بھی ڈالیے .
صرف قرآن کریم سے دعوت دیتے ہیں ,
قرآن کے ساتھ سیرت رسول سے بھی کچھ باتیں
بتاتے ہیں اور جلدی سے کلمہ پڑھا کر چھوڑ دیتے ہیں,
ہندوؤں کی کتابوں جیسے گیتا رامائن اور ویدوں سے شلوک پڑھ کر ان کو دعوت دیتے ہیں .
لیکن یہ تمام مناہج اب زیادہ مفید ثابت نہیں ہو رہے ہیں وجہ اس کی یہ ہے کہ ہماری دعوت میں وہ حکمت عملی نہیں پائی جاتی جس کی قرآن ہمیں دعوت دیتا ہے اسی لیے .S. T (شیڈول ٹرائب )کی بڑی تعداد عسائی بنتی جا رہی ہے اور .S. C شیڈول (کاسٹ )کا اکثر طبقہ دہریت کی طرف جا رہا ہے .
اسی طرح B. C. اور O. B. C. ( بیک ورڈ کلاس )کا اکثر طبقہ آر ایس ایس کا رائٹ ونگ بن چکا ہے اور وہ یہ سمجھ رہا ہے کہ اس طرح سے ہم اپنے وطن کے لیے لڑائی لڑ رہے ہیں اور بی جے پی ہماری مذہبی پارٹی ہے جو ہمارے مذہب کے لیے لڑرہی ہے .
ایک اہم بات یہ ہے کہ ہم ان طبقوں کو دعوت دیتے ہوئے ان کے قائدین کا حوالہ بھی ضرور دیں اس سے وہ زیادہ متاثر ہوتے ہیں مثال کے طور پر جب ہم .S.T کے طبقے سے بات کریں تو ان کے قائدین کے حوالہ سے بات کریں .S.T کے دو قائد ہیں برسا منڈا , اور سیوا لال , تلنگانہ کے بوڈر پر برسا منڈا کا استھان ہے جہاں پر ہر سال چھ سات کروڑ لوگ آتے ہیں ان کی زیادہ تعداد جھار کھنڈ اور تلنگانہ میں ہے جھارکھنڈ میں برسا منڈا کا اسٹیچو آپ کو ملے گا برسا منڈا چوک برسا منڈا یونیورسٹی, منڈا قوم ایسی ہے جو ہمیشہ آریاؤں سے لڑتی رہی ہے اور ان کی تہذیب کو بالکل قبول نہیں کیا اس لئے وہ جنگل میں رہتے ہیں .
جب ہم .S. C شیڈول کاسٹ کے طبقے سے بات کریں تو امبیڈکر کے نظریات بھی ان کے سامنے رکھیں اسی طرح جب بی سی اور او بی سی کے طبقے کو دعوت دینے کا طریقہ یہ ہونا چاہیے کہ ہم ان کو بتائیں کہ ہندوستان کی پولٹیکس میں تمہاری کتنی presentation )پریزنٹیشن ہے لوک سبھا میں کتنے ہیں راجیا سبھا میں کتنے ہیں سپریم کورٹ میں کتنے ہیں اور سب سے بڑی بات کیا وہ تمہیں اپنے برابر سمجھتے ہیں یا نہیں ؟ اور جوتبا راؤ پھولے, اور پیریار , یہ دونوں OBC کے بڑے قائد ہیں ان کے بارے میں بتائیں کہ برہمن واد کے حوالے سے ان کے کیا نظریات تھیں .
کیونکہ ہماری ہر طبقے کو دعوت دینے کی اسٹریٹجی الگ ہونی چاہئے کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لئے لیے نمونہ ہے اور ہم اللہ کے رسول کی زندگی میں دیکھتے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر طبقہ کو دعوت دینے کے لئے الگ اسٹریٹجی اپنائی ہے لیکن ہم ہر کسی کو دعوت دینے کے لیے قرآن و حدیث کی باتیں , مذہب کی باتیں , گیتا رامائن کی باتیں, اور ویدوں کے شلوک پڑھ کر ہی دعوت دیتے ہیں جبکہ .S.T (شیڈول ٹرائب) کا جو طبقہ ہے وہ مذہب کو اپنا دشمن مانتا ہے کہ مذہب کی ہی وجہ سے ہم ہزاروں سال غلام بنے رہے اور ہم اس کے سامنے مذہب کی ہی باتیں کرتے ہیں تو وہ کیسے ہماری دعوت کو قبول کرے گا ہمیں دعوت دینے سے پہلے ان کے مسائل کو سمجھنا ہوگا اس طبقے کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ سماج کے اندر اپنا ایک سوشل اسٹیٹس اور مقام چاہتا ہے برابری چاہتا ہے تو ہمیں ان موضوعات پر بات کرکے اس کو بتانا پڑے گا کہ اسلام میں مساوات و برابری, بھائی چارگی جیسی تمام چیزیں موجود ہیں اسلام قبول کرکے آپ کی تمام پرابلم ختم ہو جائیں گی.
اب ہمیں دعوت کے کام میں تھوڑی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے . مثال کے طور پر کوئی صدیوں سے عیسائی ہو تو اس کو دعوت دینے کا طریقہ الگ ہے لیکن جو.S.T , اور ST کے طبقے کے لوگ ہیں جو ابھی نئے نئے عیسائی ہوئے ہیں ان کو دعوت دینے کا طریقہ محتلف ہوگا اگر ہم اس کو مولانا رحمت اللہ کیرانوی صاحب کی کتاب اظہار الحق کے ذریعے دعوت دینا چاہے تو وہ بے سود ہے یہ بیچارہ کیا جانے کہ روح القدس کیا ہے عیسی ابن مریم روح القدس اور خدا یہ تینوں مل کر ایک خدا کیسے ہیں ؟ یہ بیچارہ تو اپنا سوشل اسٹیٹس صحیح کرنے کے لئے عیسائی بنا ہے تو اس طرح کے طبقوں کو دعوت دینے کا طریقہ یہ ہونا چاہیے کہ ہم ان سے بات کریں کہ عیسائیت قبول کر کے بھی آپ کو وہ اسٹیٹسس حاصل نہیں ہوا جو آپ چاہتے تھے کیونکہ یہاں جو عیسائیوں کے بڑے بڑے پادری ہیں ان کے چرچ الگ ہے اور جو انگریز ہیں ان کے چرچ الگ ہیں اور جو( ST )اور( SC )عسائی بن گئے ہیں ان کے چرچ الگ ہیں کالے لوگوں کے چرچ الگ ہے تو ان کو بتانا پڑے گا کہ اگر تم مسلمان بنو گے تو کسی بھی مسجد کے اندر تم جا سکتے ہو اور اگر قرآن تھوڑا اچھا پڑھنا سیکھ لو تو تم ہمارے امام بھی بن سکتے ہو یہ مقام اور اسٹیٹس تمہیں کہیں اور نہیں ملے گا.
یہ تو دعوت دینے کی بات تھی لیکن بڑا مسئلہ ان کے اسلام قبول کرنے کے بعد پیدا ہوتا ہے اور وہ ہے شادی کا مسئلہ کہ ان سے اپنی لڑکی کی شادی کرنے کے لیے کوئی تیار نہیں ہوتا اور نہ ہی نو مسلم لڑکی کو کوئی اپنے نکاح میں قبول کرتا ہے بہت سارے واقعات اس طرح کے سننے کو ملتے ہیں کہ ایک بہت امیر گھر کی لڑکی نے اسلام قبول کرلیا اور اچھی پڑھی لکھی بھی تھی لیکن اسلام قبول کرنے کے بعد اس کو کسی اچھے گھرانے میں رشتہ نہیں ملا پھر پانچ سال کے بعد شادی کے لئے ایک ایسے شخص کا فون اس کے پاس پہنچتا ہیں جو پہلے سے ہی شادی شدہ ہے وہ لڑکی روتے ہوئے اپنی روداد سناتی ہے کہ اسلام لانے کی وجہ سے میں اتنی گر گئی کہ ایک اچھے گھرانے کے اندر مجھے رشتہ بھی نہیں مل سکتا اگر میں اپنے گھر ہوتی تو بڑے بڑے گھرانے کے رشتے میرے لئے ( Available ) تھے تو اس مسئلہ کا حل یہ ہے کہ ہم دعوت کے کام کو اتنی ہی تیزی اور کشادگی کے ساتھ آگے بڑھایئں جیسے ابتدا میں یہ کام ہوا تھا تو اس کی وجہ سے بہت سارے لوگ اسلام قبول کریں گے اور جب بہت سارے لوگ ایک ساتھ اسلام میں داخل ہونگے تو پھر یہ مسئلہ پیدا نہیں ہوگا لیکن اگر دعوت کے کام میں تیزی نہیں آئی تو پھر ایک دو یا دو چار لوگ مسلمان بنیں گے تو یہ مسائل بدستور باقی رہیں گے .
ایک دوسری بات یہ ہے کہ ہمیں مسجد اور عام جلسوں کے اندر بھی جس طرح سے
ہم دوسر
ے موضوعات پر بیان کرتے ہیں اسی طرح سے ان موضوعات پر بھی بولنے کی ضرورت ہے کہ اسلام کے اندر ذات پات یا اونچ نیچ کا کوئی مسئلہ نہیں ہوتا اگر کسی نے اسلام قبول کر لیا تو وہ ہمارا بھائی ہے اور ہم سب برابر ہے .
ابتدا میں مسلم بادشاہوں سے جہاں دوسری غلطیاں ہوئی جیسا کہ مؤرخین لکھتے ہیں وہی ایک بڑی غلطی یہ ہوئی کہ ان کے ہاتھوں میں پاور تھی اور حکومت تھی لیکن اس کے باوجود انہوں نے اس ذات پات اور اونچ نیچ کے نظام کو ختم نہیں کیا انہوں نے یہ سمجھا کہ ہمیں دوسروں کے مذہب کے معاملے میں دخل اندازی نہیں کرنی چاہیے مذہب کے معاملے اور اس پر عمل کرنے کا حق صرف مذہب والوں کو ہے لیکن اس مذہبی رواداری کے چکر میں انہوں نے ایک بڑا ظلم جو دلتوں پر ہو رہا تھا اس کا خاتمہ نہیں کیا یہ سب کام تھوڑا بہت ٹیپو سلطان( deal ) نے کیا یہی وجہ ہے کہ SC اور ST کا طبقہ ٹیپو سلطان کو اپنا پیشوا اور مہاپرش مانتا ہے .
ہزار برق گرے لاکھ آندھیاں اٹھیں
وہ پھول کھل کے رہیں گے جو کھلنے والے ہیں
محمد دلشاد قاسمی