تحریر: محمد اسلام فیضی
پوری کائنات رب تعالٰی کی خو بصورت تخلیق ہے ،اسے انسان کی جسمانی اور روحانی ضروریات کو مدنظر رکھ کر مکمل کیا گیا،انسان نے پتھر کے دور سے جدید ترقی یافتہ دنیا کا سفر بڑی تیزرفتاری سے کیا، مگر اس ترقی کے ساتھ ساتھ مختلف تبدیلیاں بھی نمودار ہوئیں جس نے انسان پر منفی اثرات مرتب کیے، جنگیں،کہیں ایٹمی تجربات کبھی زلزلے، کبھی بارش اور انو کھی بیماریاں انسان پر قیامت بنکر ٹوٹ پڑیں، جس سے لمحوں میں لاکھوں انسان لقمہ اجل بن گئے، مگر انسان نے کسی سے کوئی سبق نہیں لیا بلکہ فطرت کے منافی اقدامات کر کے اپنے لیے مشکلات میں اضافے کا باعث بنا،حالیہ دنوں میں کرونا وائرس نے دنیا کے
ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور کچھ ہی دنوں میں یہ وائرس ایک 180 سے دوسرے کو لگتے هوئے ہزاروں افراد لقمہ اجل بن گے۔
اس کی دہشت نے پوری دنیا کو لاک ڈاؤن پر مجبور کر دیا اور جدید سائنسی ایجادات و تجربات کی حقیقت کھل کر سامنے آ گئی ہے ۔بے شک اس نظام کو چلانے والی ہستی سب سے با لادست ہے،وضو جہاں جسمانی صفائی کا ذریعہ ہے اسی طرح اس طرح کے وبائی امراض اور نا گہانی آفات جو نہ صرف احتیاطی تدابیر کا تقاضا کرتی ہیں، وہاں آزمائش کی اس گھڑی میں انسانیت بھی ایک امتحان سے گزر رہی ہے ،بلا شبہ موت کا ایک وقت مقرر ہےمگر اپنا ہے ۔
مشکل کی اس گھڑی میں سب سے زیاده متاثر وه ہو رہے ہیں جو دیہاڑی دار ہیں جن کے گھر کا چو لہا اس وقت جلتا ہے جب شام کو وه کچھ روپے لے کر گھر پہنچتے ہیں ،یعنی اس سنگین صورت حال میں ایک تو اس موذی وائرس کا مقا بلہ کر نا ہے دوسرا بھوک اور افلاس کے ہاتھوں اموات سے بھی بچانا ہے ۔اس وقت انسان پر ایک آزمائش نازل ہوئی ہے کہ وه کیا کر تا ہے،ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وه عوام کے لیے آسانی پیدا کرے مگر اس کے ساتھ ساتھ بحیثیت انسان بحیثیت مسلمان کچھ معاشرتی ،سماجی اور سب سے بڑھ کر مذہبی طور پر بھی وقت کا تقاضا ہے کہ اپنے بچوں کے ساتھ دوسرے افراد کا بھی بازو بن جائیں ،آپ کی وجہ سے اگر کسی کو کچھ بھی نقصان پہنچا خواه وه کسی بھی مذہب یا کسی بھی مسلک کا ہو،چاہے وه
آپ کا دشمن ہی کیوں نہ ہواگر وه بھوکا ره کر مر گیا تو مان لیجیے کی آپ انسانیت کے دشمن ہیں اور مسلمان کہلانے کے تو بلکل لائق ہی نہیں ہیں ،کیونکہ آپ ہم سب کے نبی حضرت محمدﷺ کی تعلیمات کو بھول گئے ہیں ،جنکے اخلاق،کردار،صداقت ،انصاف، دیانت اور پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کی تعریف اس وقت کے سب سے بڑے دشمن ابو سفیان (ایمان لانے سے قبل)ملک شام کے بادشاه ہرقل کے سامنے کرنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ اور بلخصوص بوڑھوں کا خیال رکھیں۔
چین سے شروع ہونے والے اس وائرس سے عالمی معیشت کو بہت نقصان پہنچا، ہماری کمیونٹی بھی شدید پریشانی کا شکار ہے۔مارکیٹس میں روزمره کی اشیاء میں قلت پیدا ہونا شروع ہوگئی ہے، دکانداروں نے بھی اس موقع سے فائده اٹھاتے ہوئے شرمناک طریقے سے اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا ہے جو کہ قابل مذمت ہے اس حوالے سے مسلمانوں کو مثبت کردار ادا کرتے ہوئے برٹش ہیلتھ کی حفاظتی گائڈ لائن پر عمل کرنا ہو گا اورسیز کمیونٹی کو بھی غیر ضروری سفر سے اجتناب کرنا چاہیے۔ یہ بات یقینی ہے کہ مسافروں، مزدوروں اور غریب پریواروں کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔امید ہے حکومت ہند تارکین وطن کی سہولت کے لیے کوئی راستہ ضرور نکل آئے گا۔
عالمی وباء کورونا وائرس سے پوری دنیا میں وسیع پیمانے پر انسانیت ہلاک ہو رہی ہے اور یہ سلسلہ کب ختم ہوگا خدا ہی بہتر جانتا ہے نفسا نفسی کا دور دوره ہے اور معاشی میل جول ختم ہو کر ره گیا ہے۔ اربوں افراد اب خوراک کی تلاش میں نکل پڑے ہیں اگر یہ بحران کچھ عرصہ مزید جاری رہا تو عین ممکن ہے کہ انسان ہی انسان کی خوراک بن جائے جیسا کہ زمانہ قدیم میں ہوتا تھا ۔جنگلی جانور بھوکے مریں گے تو انسان بھی بھوک سے تڑپ تڑپ کر جان دینے پر مجبور ہو جائیں گے۔ چاند، سورج ، آسمان اور زمین بنانے والے خالق کی یہ ناراضگی کا اظہار نہیں تو اور کیا ہے ۔بڑی بڑی طاقتیں اور ان کے بادشاه اپنے آپ کو سپر پاور سمجھتے تھے مگر چند ہی لمحوں میں خدا وند کریم نے انسان کے بے بس اور مجبور ہونے کا احساس دلا دیا ہے اسی کا ذکر قران پا ک میں بار بار آیا ہے اے انسان تو اپنی تخلیق پر غور کر تو خواه آسمان کی بلندیوں پر چلا جا یا زمین کی تہہ میں جو وقت تیری موت کا مقرر ہے موت کو تجھے اس وقت گھیر ہی لینا ہے ہم سب غفلت کا شکار تھے اور اس کا صرف اور صرف ایک ہی حل ہے کہ پوری دنیا خواه وه کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں اجتماعی توبہ کر کے الله کی ناراضگی کو دور کر سکتے ہیں ۔ہمارے الله کے حضور مانگنے میں تو دیر لگ سکتی ہے مگر اس کے معاف کرنے میں کوئی دیر نہیں لگتی ۔معاف کرنا اس کی شان ہے ۔کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا بھر سے اربوں افراد نہ صرف بیروزگار ہو رہے ہیں بلکہ تڑپ تڑپ کر جان بھی دے رہے ہیں۔
کہ یہ ہدایت بعینہ آج کی ریاس
توں کی طرف سے وبائی بیماری پیغمبر خداﷺ کے وقت اختیار کی جانے والی احتیاطی تدابیر کا نچوڑ ھے جسے دنیا میں ‘‘سینٹ لوئس ماڈل’’ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جس کے تحت متاثره لوگوں کو قرنطینہ میں رکھا جاتا ہے اور کوشش کی جاتی ہے کہ انسانوں کی نقل و حرکت کو کم سے کم کرکے بیماری کو پھیلنے سے روکھا جائے۔
دنیا میں ‘‘نوول کرونا’’ کوئی پہلی وبائی بیماری نہیں بلکہ اس سے پہلی بھی بہت سی وبائی امراض پھوٹے ہیں چودہویں صدی میں دنیا میں ‘‘طاعون’’ کی وبا پھیلی جب تک اس کو کنٹرول کیا جاتا اس نے کچھ ہی عرصہ میں بیس میں برطانیہ میں طاعون سے 1666کروڑ انسانی زندگیوں کا خاتمہ کر دیا تھا۔ایک لاکھ انسان ہلاک ہوئے تھے۔ انیسویں صدی میں ہیضہ کی وباء پھوٹ پڑی میں پولیو کی بیماری کی 1950تھی جس نے کروڑوں انسانوں کو متاثر کیا تھا۔ تشخیص ہوئی جس سے اب تک لاکھوں انسان متاثر ہیں اور یہ بیماری اب تک موجود ہے ۔ ٹی بی کو بھی ایک عرصہ تک متعدی بیماری سمجھا جاتا رہا مگر اس کے علاج کی دریافت کے بعد اس کا خطره اب کم ہوگیا ہے مگر پھر لاکھ انسانی جانیں ضائع 13 وه سال تھا جس میں ٹی بی سے دنیا میں2018بھی 1950ہوئی تھیں۔ چیچک کا مرض اٹھارہویں صدی میں سامنے آیا تھا لیکن میں اس نے وبائی شکل اختیار کرلی تھی جس سے دو دھائیوں کے دوران تین میں اس مرض کی وبائی شکل پر قابو پا 1970کروڑ انسان متاثر ہوئے تھے۔میں زکام کی شکل میں ‘‘سپینش انفلونزائ’’ پھیل گیا اور بہت 1918لیا گیا تھا۔بڑے پیمانے پر انسانی ہلاکتیں ہوئیں جن سے یورپ میں دس کروڑ انسان متاثر ہوئے تھے اور امریکہ میں بیس لاکھ کے قریب لوگ متاثر ہوئے تھے۔
کرونا کا وائرس کوئی ستر سال سے دنیا میں موجود ہے۔ پرندوں اور سمندری وہیل جبکہ زیاده تر چمگادڑوں میں یہ موجود ہوتا ہے جس میں معمولی سا زکام ہوتا ہے اور انسان جلد ٹھیک ہو جاتا ہے ۔مگر موجوده وائرس کو ‘‘نوول سے پھیلنا شروع ہوا اور 2019کرونا’’ کا نام دیا گیا ہے۔ اس وائرس کا خوف اب رفتہ رفتہ پوری دنیا میں اس کا خوف بڑھ رہا ہے جو اس وائرس کی سب سے مہیب اور جلد پھیلنیےوالی شکل ہے۔ حفظ ماتقدم کے طور پر علاج، احتیاط، صفائی، حلال اور پاک خوراک کی ترغیب اسلام نے دی ہے۔ ہر طرح کی بیماریوں کے حوالے سے ماہرین طب کے مشوروں پر عمل کرنا چاہیے۔ انسانی ہمت تدبیر اور اس کا نتیجہ تقدیر ہے۔
مگر اس کے ساتھ حکومت کی ذمہ داری بھی بنتی ہے کہ قوم میں عمومی خوف پھیلانے اور علاج معالجے کی سہولیات کیلئے دنیا سے بھیک مانگنے کے بجائے عملی اقدامات اٹھائے۔ ہم ایک پسمانده ریاست میں ره رہے ہیں جس میں زندگی کی دوسری بنیادی سہولیات کے ساتھ ساتھ صحت کی سہولیات کی حالت بھی ناگفتہ بہ ہے۔ ایسے میں عوام کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وه اپنی استطاعت کے مطابق تمام ضروری اور احتیاطی تدابیر اختیار کریں اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے۔