محمد اسلام فیضی
شعبئہ تعلیمات جامعہ ملیہ اسلامیہ نئ دہلی
سنسد میں دی گئ جانکاری کے مطابق لگ بھگ 90 لاکھ ہندوستانی 6 عرب ممالک(سعودی عرب ،متحدہ عرب امارات ،عمان ،بحرین ، کویت اور قطر)میں ہیں جو وہاں پر نوکری یا اپنا کا روبار کر رہے ہیں۔ان ملکوں میں شہریت ملنے کا کوئ قانون نہیں ہے اس لئے یہاں پر رہنے والے سبھی لوگ اپنی پوری کمائ غیر ملکی کرنسی کی شکل میں ہندوستان میں بھیجتے ہیں۔دنیا میں سب سے زیادہ غیر ملکی سرمایہ ہندوستان میں آتا ہے۔گزشتہ سال ہندوستان میں 80 بیلین ڈالر آئے تھےجسکا 50 فیصد سے زیادہ عرب ملکوں سے تھا۔مطلب یہ ہے کہ عرب ملکوں میں کام کرنے والے ہندوستانی دیش کی معیشت میں بہت اہم کردار نبھا رہے ہیں ۔تیل کے لئے بھی ہم پوری طرح سے عرب ملکوں پر منحصر ہیں کیونکہ امریکہ کے دباؤ میں ہم پہلے ہی ایران سے تیل لینا بند کر چکے ہیں اور ایران سے تعلق خراب کر چکے ہیں۔
ابھی حال فی الحال میں سوشل میڈیا پر پھیلی نفرت جس طرح سے عرب ملکوں تک پہنچی ہے اور بھاجپا کے سانسد تیجسوی سوریا اور سبر امنیئن سوامی نے اپنے گھٹیا ٹوئٹ سے اس آگ کو جس طرح بھڑکایا ہےاس سے وہاں پر رہنے والے ہندوستانیوں کے لئے نوکری کا خطرہ ہو گیا ہے۔کورونا وائرس کے چلتے جس طرح سبھی ملکوں کی معیشت ڈوبنے کے کگار پر ہے ،ایسے وقت میں اگر ہندوستانیوں کی نوکری گئ تو اس سے ہمارے ملک کی معیشت پر دوہری مار پڑئیگی ۔
یہاں کے نفرتی چنٹو اور انپڑھ اور گنوار ہیں لیکن عرب ملکوں میں رہنے والے لوگوں کو تو یہ بات سمجھنا چاہئے ۔وہ کیوں ان جاہلوں کے چکؑر میں اپنی نوکری داؤں پر لگا رہے ہیں ؟وہ کیوں سوشل میڈیا پر اسلام مخالف اور عرب مخالف پوسٹ لکھ رہے ہیں؟انھیں تو پتہ ہونا چاہئے کہ جس ملک میں وہ رہ رہے ہیں ،وہاں کا قانون کسی بھی مذہب کے خلاف نفرت پھیلانے پر کیا سزا دیتا ہے۔ہر روز 2،4 لوگوں کی نوکری جانے اور جیل میں جانے کی خبر سوشل میڈیا پر دیکھتا ہوں تو حیرت بھی ہوتی ہے اور انکی عقل پر رحم بھی آتا ہے۔
حکومت کو چاہئے کہ میڈیا اور سوشل میڈیا پر پھیلنے والی نفرت کو روکے ۔عرب ملکوں کو بھروسے میں لیکر وہاں پر اٹھ رہے مخالفت کو ختم کرنے کے لئے کچھ اہم قدم اٹھائے۔اور بھارت میں رہنے والے لوگ بھی اس حقیقت کو سمجھیں کہ اگر تعلقات خراب ہوئے تو نقصان کسی ایک سماج یا مذہب کا نہیں ہوگا بلکہ پورے ملک کا ہوگا۔
شیخ سعدی کا ایک قول ہے کہ اگر کوئ آپ سے یہ کہے کہ آج سورج مغرب سے نکلا ہے تو یقین کر لینا لیکن اگر کوئ یہ کہے کہ پھلاں آدمی نے اپنی فطرت بدل دی ہے تو یقین مت کرنا۔کسی بھی آدمی کی سوچ ،اسکی فطرت ،اسکی نظریہ نہیں بدلتی ۔ تیجسوی سوریا نے بہت کم عمر میں بھاجپا کا ٹکٹ پا لیا اور سانسد بن گئے ۔انکو بھاجپا کا ٹکٹ انکی سخت نظریہ اور بنداش شبیہ کی وجہ سے ملا تھا لیکن انکی تنگ نظری ایک منٹ بھی نہیں ٹک پائی
جب عربوں نے انکا پہچان لینا شروع کر دیا۔یہ کیسی بنداش شبیہ تھی جو ایک دن بھی ٹک نہیں پائ؟اور گھٹنے ٹیک دئے تیجسوی سوریا کا اگر سچ میں وہی نظریہ تھی جسکے لئے انھیں بھاجپا کا ٹکٹ ملا تھا تو وہ اپنے بیان(ٹوئٹ) پر قائم رہتےاور اپنے ٹوئٹ کے حمایت میں کچھ مضبوط ثبوت دے کر عربوں کا منھ بند کر دیتے لیکن ایسا نہیں کیا۔
سونو نگم کو 2،3 منٹ کی آذان بہت پریشان کرتی تھی انھوں نے بہت غصؑے میں ہو کر اسکے خلاف ٹوئٹ کیا تھا۔پورے ملک میں انکی حمایت اور مخالفت میں ایک لہر دوڑ گئ تھی ۔گمشدہ کلاکار میں پھر سے جان پڑ گئ،اس گروہ کے چاہنے والوں نے اسے اپنا چاہنے والا بنا لیا ،تو مخالف مذہب کے لوگوں نےاسے ویلن مان لیا تھا ۔لاک ڈاؤن میں سونو نگم اتفاق سے دبئ میں پھنس گیا۔دبئ میں آج کل آذان کے بعد لاؤڈ اسپیکر سے ہی 10،15 منٹ کی اپیل ہندی،انگریزی ،عربی،بنگالی،اور ملیالی میں ہو رہی ہے جس میں سب کو لاک ڈاؤن پر عمل کرنے اور گھروں میں رہنےکے لئے بولا جا رہا ہے ۔جو آدمی آذان سے پریشان تھا ،اب وہ خوشی خوشی اپیل بھی سن رہا ہے۔عربی لوگ آج کل ٹوئٹر پر سرگرم ہیں اور پرانے ٹوئٹ کھنگال رہے ہیں۔اس چکّر میں صاحب نے اپنا اکاؤنٹ ہی بند کر لیا ہے۔اب آپ ہی بتائیے سونو نگم کواذان کی آواز سے تکلیف ہوتی تو دبئ میں بھی ہوتی ،وہ وہاں کے لوگوں کوبھی سمجھانے کی کوشش کرتا لیکن اس نے تو سمجھانے کی جگہ اپنا ٹوئٹر اکاؤنٹ ہی ختم کر دیا ۔
سونو نگم ہوں،تیجسوی سوریا ہو یا کوئ اور ہو انکی نظریہ موقع پرستی ہے۔کل کو حکومت بدل جائے یا حکومت اپنے اسٹینڈ میں بدلاؤ لے آئے تو ان لوگوں کا نظریا بھی بدل جایئگی ۔انکے ساتھ پی، آر کمپنی کام کرتی ہیں جو ان سے حالات کے حساب سے بیان دلواتی ہیں جس سے یہ لوگوں کے بیچ میں زندہ رہ سکیں ۔اگر ہم نے ان لوگوں کو نظر انداز کرنا سیکھ لیا تو یقین مانئے یہ لوگ سر پیٹ پیٹ کر خود ہی گمنامی کے اندھیرے میں اپنی موت مریں گے۔
مرجائیں گے