تحریر: محمد ظفر نوری ازہری
یکم جنوری ١۹٤٢ کو مدھیہ پردیش کے شہر اندور میں حاجی محمد صاحب کے یہاں ایک بچہ پیدا ہوا پورے گھر میں خوشی کا ماحول تھا اسلامی رسم و رواج کے مطابق پیدائش کے بعد کے تمام امور کو انجام دیا گیا اور بچے کا نام اللہ رب العزت کے اسم مباک "غفار” سے برکتیں حاصل کرتے ہو ئے عبد الغفار رکھا گھر میں دینی ماحول تھا اس لیے قرآن شریف ناظرہ کی تعلیم گھر پر ہی ہوئی اور عصری تعلیم کے لیے آپ کا اسکول میں ایڈمیشن کرادیا گیا جب آپ کو کچھ سوجھ بوجھ ہوئی تو آپ نے وکیل بننے کا اردہ کیا اسی وجہ سے آپ نے "لاء”میں گریجوشن اور ایم . ائے مکمل کیا اور پی. ایچ. ڈی. کے لیے انگلینڈ آکسفورڈ یا کیمبرج یونیورسٹی جانا چاہتے تھے اور آپ کے والد نے بھی آپ کو انگلینڈ بھیجنے کا من بنا لیا تھا اس وقت آپ کا رہن سہن ایک ماڈرن اور اسٹائیلیش نوجوان کی طرح تھا!
تقریبا ١۹۷۰ کے آس پاس حضور مفتئ اعظم ہند قدس سرہ کا اندور آنا ہوا اندور کی حالت دیکھر حضرت سمجھ گئے کہ یہاں بہت کام کی ضرورت ہے اور اگر کام نہیں کیا گیا تو حالات بہت خراب ہو جائیں گے کیوں کہ اندور اور بھوپال میں زیادہ دوری بھی نہیں ہے کہیں وہاں کی بدبو یہاں بھی نہ پھیل جائے@ ہوسکتا ہے حضور مفتئ اعظم ہند قدس سرہ اسی فکر میں ہوں اتنے میں حاجی محمد صاحب مفتئ اعظم ہند سے ملنے اور اپنے بیٹے کو مرید کرانے کے لیے حاضر ہوئے حضرت نے آپ کے بیٹے کو مرید کرلیا پھر بات چیت کا سلسلہ جیسے ہی کچھ دراز ہوا تو حضرت نے فرمایا برخوردار!!! آپ کیا کرتے ہیں؟ اس نوجوان نے جوابا کہا لاء کی پڑھائی کر رہا ہوں اور اعلی تعلیم کے لیے انگلینڈ جانا چاہتا ہوں! حضور مفتئ اعظم نے اپنی نگاہ ولایت سے دیکھ لیا کہ اللہ تعالی کو اس نوجوان سے بہت کام لینا ہے آپ نے فرمایا :میاں عبد الغفار ! اب آپ ہمارے مرید ہوچکے ہیں اور انگلینڈ اور وکالت کو چھوڑو اور اللہ کے کلام کو حفظ کرنا شروع کردو حضرت کے اس جملے نے آپ کی زندگی رخ ہی بدل دیا آپ نے بغیر کسی چوں چرا کئے ہوئے کہا جی حضرت! بس آپ دعا فرمادیں حضور مفتئ اعظم نے دعا فرمادی پھر آپ نے کالج، وکالت، انگلینڈ، آکسفورڈ، کیمبرج، یونیورسٹی وغیرہ کا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر صرف قرآن شریف کو حفظ کرنا شروع کردیا اس وقت تقریبا ٣۰ سال کے آس پاس آپ کی عمر تھی اس عمر میں ایک مختصر سی سورت یاد کرنا بھی بہت مشکل ہوتا ہے لیکن الحمد للہ مفتئ اعظم ہند کے فیضان سے صرف ١۷ مہینے میں مکمل حافظ قرآن ہوگئے اور مفتی اعظم نے خود اپنے ہاتھوں سے آپ کی دستار بندی فرمائی! اب آپ عبد الغفار سے حافظ عبد الغفار نوری ہوچکے تھے قرآن سے ایسی محبت ہوگئی کہ کنز الایمان کو بھی تقریبا مکمل حفظ کرلیا تھا جس کا ثر آپ کے بیانات سے ظاہر ہوتا تھا !
حضور مفتئ اعظم ہند قدس سرہ نے فرمایا حافظ عبد الغفار نوری! یہاں ایک مدرسہ قائم کرنا ہے آپ نے کہا جی حضرت! اور پھر رات و دن اسی کوشش میں لگے رہے بالآخر "بڑوالی چوکی” پر ایک وسیع زمین مل گئی اور اس زمین کو آپ نے پہلی فرصت میں خرید لیا اور پیمینٹ بھی اپنی جیب خاص سے فرمادیا اور ١۹۷۲ میں حضور مفتئ اعظم نے دارلعلوم نوری کا سنگ بنیاد رکھا پھر دھیرے دھیرےنوری کی اس شمع کی روشنی اندور اور مالوہ کو روشن کرتی ہوئی پورے ملک میں پھیل گئی! آپ نے شروع سے لیکر دمِ آخیر تک دارالعلوم نوری کی تعمیر و ترقی کے لئے اپنا ایک ایک لمحہ وقف کردیا تھا جس کے نتیجے میں دارالعلوم سے سینکڑوں کی تعداد میں حفاظ، علماء،قراء اور کئی مفتیان کرام فارغ ہو کر پورے ملک میں دین و سنیت کی خدمت انجام دے رہے ہیں!
مفتئ اعظم ہند قدس سرہ نے ہی ہر جمعرات کو بعد نماز عشاء آپ کے گھر "محفل نوری” کا آغاز فرمایا جو الحمد للہ! ابھی تک جاری ہے جس میں ہر جمعرات کو مریدین کثیر تعداد میں شریک ہوتےہیں اور لنگر کا بھی اہتمام ہوتا ہے اور اس محفل کی خاص بات یہ بھی ہے کہ یہاں سے کئی مقررین پیدا ہوئے جنہوں نے ملک گیر پیمانے پر اپنی خطابت کو لوہا منوایا اور ایک سے بڑھ کر ایک نعت خواں بھی تیار ہوئے اور میں نے بھی اپ کو سنتے ہوئے بولنا سیکھا!
پھر وہ ساعتِ سعید بھی آئی کہ جبلپور کی سرزمین پر برہان ملت اور دیگر علماء مشائخ کے درمیان حضور مفتئ اعظم ہند نے آپ کو اپنی اجازت و خلافت سے نوازا دیا ویسے تو ہر مرید اپنے پیرسے محبت کرتا ہے مگر الحمد للہ!! یہاں پیر اور مرید ایک دوسرے سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے! اور حضور مفتئ اعظم ہند آپ سے بے پناہ محبت فرماتے تھے جب بھی اندور تشریف لاتے تو آپ کے گھر ہی قیام فرماتے اور کئی کئی دن آپ کا قیام رہتا آپ نے حضور مفتئ اعظم کی خلوت و جلوت سے خوب برکتیں حاصل کیں اور آپ کی خوب خدمت کی یہی وجہ تھی کہ مفتئ اعظم ہند آپ کو اپنا روحانی بیٹا مانتے تھے اور حضور احسن العلماء علیہ الرحمہ تو آپ کو مفتئ اعظم کا مستان کہتے تھے!
١۹۸١ میں حضور مفتئ اعظم ہند کے وصال کے وقت آپ حضور مفت
ئ اعظم ہند کے پاس ہیتھے اور آپ نے ہی سورہ یسن تلاوت فرمائی اور جب حضور مفتئ اعظم کی روح مبارک قفصِ عنصری سے پرواز ہوئی تو اس وقت مفتئ اعظم ہند آپ ہی کے گود میں تھے۔۔۔سبحان اللہ ۔۔۔ اس پتہ چلا کہ حضور مفتئ اعظم ہند کو آپ سے اور آپ کو مفتئ اعظم ہند سے کتنی محبت تھی!
آپ نے اپنی زندگی میں دو حج اور دو عمرے فرمایا تو لوگوں نے آپ کو "حاجی صاحب” کہنا شروع کردیا اور پھر مفتئ اعظم ہندکے تقوے کی جھلک آپ کی زندگی میں اور آپ کی تعویذات میں دیکھائی دینے لگی پھر سب لوگوں نے آپ کو "نوری بابا” کے نام سے یاد کرنا شروع کردیا پھر اسی نام سے آپ کو پورے ملک میں جانا پہچانا جانے لگا( یاد رہے "نوری بابا” کا لقب بھی اپ کو سرکار مفتئ اعظم ہند نے عطا فرمایاتھا)۔
ابھی دوچار سال ہی گزرے تھے کہ ١۹۸۹ میں اندور میں میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جلوس کو لیکر دنگا فساد ہوگیا جس میں مسلمانوں کے تئیں منفی سوچ اور جلوس کی قیادت کو لے کر پولیس اور انتظامیہ نے آپ کو گرفتار کرلیا تقریبا ایک ماہ جیل میں قید وبند کی صعوبتوں سے بھی دو چار ہوئے لیکن یہ حادثہ آپ کے پایہ استقلال و استقامت میں ذرہ برابر بھی لغزش پیدا نہیں کرسکا ! اور پہلے ہی کی طرح ہر موقع پر دین و سنیت اور قوم و ملت کے لیے پیش پیش رہتے رہےاسی لیے لوگ آپ کو "محافظِ شریعت” بھی کہتے تھے۔
١۹۹۰ میں بغداد شریف کا سفر کیا حضور سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ سے بے پناہ محبت تھی جب کوئی منقبتِ غوث اعظم پڑھتا آپ کی کیفیت اور حالت لائقِ دید ہوتی! آپ ہر مہینے گیارہویں شریف کا اہتمام بھی فرماتے تھے آپ کو بغداد شریف میں اسپیشل طریقے سے زیارت کرائی گئی اور وہاں کے سجادہ نشین صاحب آپ کو خلافت سے بھی نوازے اور غوث پاک کے مزار شریف کی ایک چادر اور اسکے علاوہ کئی تبرکات بھی عطا فرمائے اس چادر شریف اور تبرکات کی زیارت محفل نوری میں بھی کرائی جاتی تھی ۔
آپ مسلک اعلی حضرت قدس سرہ کے سچے علمبردار تھے عاشقانِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پھول سے زیادہ نرم و نازک اور گستاخانِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تلوار اور لوہے سے زیادہ سخت تھے! آپ نے خدمتِ دین کے لیے کبھی پیسہ نہیں لیا اور ہرسال تراویح سناتے اور نذرانہ جس مسجد میں سناتے وہیں امام صاحب کو دے دیا کرتے تھے !پوری زندگی جلسے جلوس کرتے رہے کبھی اپنے پروگراموں کا نہ نذرانہ طے کیا اور ناہی مقررین کی طرح کبھی نخرے کیے! بس خلوص و للہیت کے ساتھ تبلیغِ دین و مذہب اور خدمتِ سنیت کا کام کرتے رہے! مجھے یاد ہے ١۹۹٤ میں بڑہ نگر اجین میں ایک مدرسے کی سنگِ بنیاد کا جلسہ تھا مقرر مولانا اظہر القادری صاحب(سیتا مڑھی) تھے وہ چندہ کررہے تھے انہوں نے عوام کے سامنے اپنی جھولی پھیلادی اور کہا میں آپ سے مدرسے کے لئے صرف ایک کمرے کا سوال کرتا ہوں جس کی لاگت اُس وقت ٣۰ ہزار روپے کے آس پاس تھی جلسےمیں ہزاروں کا مجمع تھا ان کو ایسا لگ رہا تھا کہ ایک کمرے کی رقم کوئی بھی دے دے گا مگر وہ کئی بار کہتے رہے مگر کوئی نہیں اٹھا! انہیں کافی شرمندگی کا احساس بھی ہو رہا تھا! اس وقت حضور نوری بابا بھی اس جلسے میں تھے آپ نےان کی حالت دیکھکر فرمایا ایک کمرے کی رقم ہماری طرف سے اور مولانا اظہر القادری صاحب کو شرمندگی سے بچالیا ! آپ سیٹھ تو تھے ہی لیکن اللہ تعالی نے اپنے فضل و کرم سے آپ کو جذبہ سخاوت سے بھی سرشار فرمایا تھا اسی وجہ سے آپ کو "مخیر قوم و ملت” اور "رئیس قوم ملت” جیسے القابات سے بھی یاد کیا جاتا تھا!
اندور مالوہ اور پورے ملک میں تقریبا ٣ سے ٤ لاکھ آپ کے مریدین ہیں اور سینکڑوں آپ کےخلفاء ہیں (الحمد للہ مجھے بھی آپ نے اجازت وخلافت سے نوازا) آپ دو بار گوالیار بھی تشریف لائے یہاں بھی آپ کے کئی مریدین ہیں اور یہاں جو لوگ بھی آپ سے ملے وہ اب تک آپ ہی کو یاد کرتے ہیں آپ اپنے مریدین کا بہت خیال رکھتے تھے جب جہاں جیسی مدد کی ضرورت ہوتی تو فوری طور پر مدد فرمادیتے! آپ کا لنگر خانہ ١۲ مہینے چلتا رہتا تھا!
دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم پر بھی آپ نے بہت کام کیا آپ کے والد اور چند لوگوں نے ملکر ایک سوسائٹی "اسلامیہ کریمہ” کے نام سے بنائی اس سوسائٹی کا مقصد تھا کہ مسلم بچوں کو عصری تعلیم سے قریب کیا جائے بہت چھوٹے پیمانے پر اس سوسائٹی کا آغاز ہوا اس کا تھوڑا بہت کام ہوا پھر اس کی ذمہ داری بھی آپ ہی کے کاندھوں پر ڈال دی گئی جس کے ٤۰ سال آپ صدر رہے اور اپنی سوجھ بوجھ، محنت و لگن سے اسے فرش سے عرش پر پہونچا دیا! اس سوسائٹی کے زیرِ نگرانی کئی اسکولز اور کالجز چل رہے ہیں اور تقریبا ۲۰ ہزار سے زائد بچے ان اسکولوں اور کالجز میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں یہ ادارہ مدھیہ پردیش میں عصری تعلیم کے اعتبار سے سب سے بڑا مسلم ادارہ ہے اس ادارے کو مدھیہ پردیش کی مسلم علیگڑھ یونیوسٹی بھی کہا جاتا ہے۔
راقم الحروف کی یہ خوش نصیبی ہے کہ مجھے ان ساتھ کافی وقت گزار نے کا موقع ملا ،دینی پروگراموں کے سلسلے میں ان کے ساتھ کئی سفر کئے آپ صوم و صلوۃ کے پابند تھے، منکسر المزاج، خلیق و ملنسار تھے ہمیشہ لوگوں سے شفقت اور محبت سے پیش آتے تھے اور ہمیشہ مسکراتے رہتے تھے اور ہر ایک کی بات کو مکمل توجہ سے سنتے لوگ
ایک ملاقات میں ہی آپ کے دیوانے ہوجاتے تھے اور ان کے علاوہ بہت سی خوبیوں کے مالک تھے ۔
ایک ملاقات میں ہی آپ کے دیوانے ہوجاتے تھے اور ان کے علاوہ بہت سی خوبیوں کے مالک تھے ۔
آپ کے دو بھائی اور تھے اور آپ کے ایک صاحبزادے بھی ہیں ۲١ اپریل ۲۰۲۰ بروز منگل کو اس دارفانی کو الودع کہتے ہوئے اپنے تمام مریدین ،متوسلین اور پسماندگان کو روتا بلکتا چھوڑ کر اپنے مالک حقیقی سے جاملے( انا للہ وانا الیہ راجعون) ان کی قبر پر رحمت و انوار کی بارشیں ہوتی رہیں۔
آپ کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے۔ آمین