لاک ڈاؤن میں مظاہرین کا لاک اپ

تحریر: طارق انور مصباحی
باسمہ تعالیٰ وبحمدہ والصلوٰۃوالسلام علیٰ رسولہ الاعلیٰ وآلہ
کیا کہوں احباب کیا کارنمایاں کرگئے      بی اے ہوئے نوکرہوئے پنشن ملی اورمرگئے
 کبھی اسکول وکالج کے تعلیم یافتگان سے متعلق کہاجاتا تھا کہ وہ صرف اپنی زندگی جیتے ہیں اورقومی خدمات کی جانب مائل نہیں ہوتے،لیکن بھارتی سیاست پر انہیں کا تسلط ہے۔آج بھی جتنے لیڈرنظرآتے ہیں،وہ کالج و یونیورسٹی کے فارغین ہی ہوتے ہیں۔بھارت میں سلطنت مغلیہ کے زوال کے بعد علماکا سیاسی کردار بھی زیرذہن دفن ہوگیا۔
سی اے اے (CAA) کے خلاف سب سے پہلے پرزور احتجاج جامعہ ملیہ اسلامیہ (دہلی)کے اسٹوڈنٹس نے 11:دسمبر 2019 سے شروع کیا۔13::دسمبر کو اسٹوڈنٹس کا احتجاجی مارچ پارلیامنٹ کے لیے نکلا،مگر دہلی پولیس نے بیریکیڈ لگا دئیے اور ہولی فیملی اسپتال کے پاس ہی احتجاجی مارچ کوروک دیا۔اسی دن پولیس نے لاٹھی چارج کیا،آنسو گیس کے گولے داغے،جس میں بہت سے بچے زخمی ہوئے اورپچاس سے زائد طلبہ کوگرفتارکرلیا۔
15:دسمبر کو شام 6:46 پر ملیہ یونیورسٹی میں پولیس والے اورکچھ غنڈے یونیورسٹی منتظمہ کی اجازت کے بغیر یونیورسٹی کیمپس میں داخل ہوگئے۔پولیس والوں نے طلبہ(بوائے اسٹوڈنٹس) کوبھی مارپیٹ کیا اورجینس پولیس نے وہاں کی طالبات (گرل اسٹوڈنٹس)کوبھی زدو کوب کیا،حالاں کہ جینس پولیس عورتوں پر ہاتھ نہیں اٹھاتے۔
جامعہ ملیہ میں پولیس اور غنڈوں نے ایسی بربریت دکھلائی کہ انسانیت شرمسار ہوگئی۔ایک طالب علم کی آنکھ چلی گئی۔کسی کا ہاتھ ٹوٹا،کسی کا پاؤں ٹوٹا۔کسی کا سر پھوٹا۔یونیورسٹی کی سنٹرل لائبریری اورریڈنگ ہال میں امتحان کی تیاری کرنے والے بچوں پر دہلی پولیس اور غنڈوں نے ظلم وستم ڈھائے۔جامعہ کی مسجد میں بھی توڑ پھوڑ کی۔اس ظلم وبربریت کی خبر پھیلتے ہی ملک وبیرون ملک کی مختلف یونیورسٹیز میں احتجاج شروع ہوگئے،اور عوامی احتجاج بھی ابھرنے لگا۔۔نتیجہ کے طورپر یہ احتجاج دیگر یونیورسٹیوں تک جاپہنچا،پھر رفتہ رفتہ دنیابھر میں پھیل گیا۔
جامعہ ملیہ میں پولیس اورغندوں کے مظالم کو دیکھ کر15:دسمبر 2019کی رات سے شاہین باغ کا احتجاج شروع ہوا،پھر اسی طرز پرملک بھر میں بے شمار مقامات پر شاہین باغ بن گئے۔ 24:مارچ 2020کولاک ڈاؤن کے اعلان کے بعد پولیس والوں نے اپنی قوت استعمال کرکے شاہین باغ احتجاج کو ختم کردیا، حالاں کہ وہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیرسماعت تھا۔اسی طر ح جامعہ ملیہ اور دیگر مقامات کے مظاہرے لاک ڈاؤن کے سبب بند کردئیے گئے۔
جامعہ ملیہ کے ساتھ مسلم یونیورسٹی (علی گڑھ) میں بھی مظاہرہ شروع ہو۱۔یہ احتجاج بھی لاک ڈاؤن تک جاری رہا۔ 15:دسمبرکی رات کوجامعہ ملیہ میں پولیس کے مظالم اورتشددکے خلاف آوازاٹھانے پر پولیس نے مسلم یونیورسٹی کیمپس میں داخل ہوکرطلبہ پر لاٹھی چارج کی۔ 100:سے زائد بچے زخمی ہوئے۔ایک ہی رات کو دونوں یونیورسٹی میں پولیس نے ظلم وبربریت دکھائی۔اسی رات کوشاہین باغ مظاہرہ شروع ہوا۔ سپریم کورٹ میں سی اے اے پر سماعت جاری ہے۔
اب خبر مل رہی ہے کہ لاک ڈاؤن کی مدت میں مظاہرین پر جعلی مقدمے درج کرکے انہیں گرفتار کیا جارہا ہے۔ یہ انتہائی افسوسناک حرکت ہے۔ اپنے مخالفین کو کسی جرم میں پھنسا کر اسے قیدوبند میں ڈالنا اہل حکومت کی ایک روایت بنتی جارہی ہے۔ لالو پرسادیادو جیل میں ہے،اورنہ جانے کتنے لوگ قومی مال کولوٹ کردیگر ملکوں کی طرف بھاگ کھڑے ہوئے۔ حکومت ان کے بارے میں کچھ ایکشن لیتی نظر نہیں آتی۔منہ دیکھ کر کاروائی کرنا غلط ہے۔
خود حکومت میں شریک کتنے لوگوں پر کرپشن کے الزامات ہیں،لیکن بات وہی ہے کہ بی جے پی سے ہاتھ ملاتے ہی سارے پاپ دھل جاتے ہیں اور مجرم گنگا نہا لیتا ہے۔ جرم ہی فنا ہوچکا تو انکوائری یا سزا کا کیا مطلب؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے