اور ٹوپی اچھالی جاتی ہے اور کبھی ان کی ڈاڑھی کا مذاق اڑایا جاتا ہے ۔اس لئے ایسے وقت میں مدارس اسلامیہ کی تحفظ وبقاء کے لیے ہمیں حتی الامکان سعی وپیھم کرنی ہے اور مدارس کو مضبوط و مستحکم کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ انہی مدارس کے ذریعے چہاردانگ عالم میں اعلاءکلمةاللہ اور اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا پرچم لہرایا جاسکتا ہے، مدارس ہی کے ذریعے باطل قوتوں کو توڑاجاسکتا ہے،مدارس ہی کے ذریعے تعصبیت کو اخوت ومحبت میں بدلا جاسکتا ہے ۔
ایسےناگفتہ بہ حالات میں، مدارس دینیہ کاتعاون امرناگزیر!!
تحریر: اسرارالحق قاسمی نیپالی
آج کے اس ناز ک اور پر آشوب دور میں مدرسہ بہت ہی قیمتی اثاثہ اور سرمایہ ہے، مذہب اسلام کا مضبوط و مستحکم قلعہ ہے، رشدوہدایت کا منبع و چراغ ہے، دین اسلام کا مامن وملجاء ہے، اور ترویج و اشاعت دین کا روشن مینار ہ ہے۔ نیز یہ کہ مدارس اسلامیہ جنت کے راستے ہیں، یہاں معرفت الہی کی کرنیں پھوٹتی ہیں، یہاں علم نبوت کی شعاعوں کو جگمگایا جاتا ہے، یہاں امت مسلمہ کے قائدین تیار ہوتے ہیں، یہاں کفر و شرک کی ظلمت و تاریکی کا قلع قمع کیا جاتا ہے، یہاں مصلحین امت کو پیدا کیا جاتا ہے، یہاں بدعات و خرافات کے امنڈتےہوئے سیلاب کو روکا جاتا ہے۔
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ مدارس اسلامیہ کا سلسلہ نسب ہمارے آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کے مدرسے جامعہ صفہ سےجاکر ملتاہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں پہلا دینی مدرسہ وہ مخصوص چبوترہ تھا جس کو "صفہ” کہا جاتا ہے اور جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلیم کتاب، تعلیم حکمت اور تزکیہ نفس حاصل کرنے والے حضرت ابوہریرہ ، حضرت علی رضی اللہ عنہما سمیت 70 کے قریب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم "اصحاب صفہ”اور سب سے پہلے دینی طالبعلم کہلاتے ہیں۔
مدارس اسلامیہ نے ہر زمانہ میں تمام تر مسائل ومشکلات، پابندیوں اور مخالفتوں کے باوجود کسی نہ کسی شکل و صورت میں اپنا وجود اور مقام برقرار رکھتے ہوئے اسلام کے تحفظ اور اس کی بقاء میں اہم اور موثر ترین کردار ادا کیا ہے۔اور اسی کی وجہ سے عالم اسلام کے چپے چپے میں مساجد ومکاتب وخانقاہوں اور عبادت گاہوں کا وسیع ترین جال پھیلاہواہے، نیز مدراس ہی سے ائمہ وخطباء،دعاة ومبلغین،معلمین ومعلمات،قضاةومفتیان،اور اسلام کا دفاع کرنے والے قلم کار پیدا ہوتے ہیں۔
مدارس اسلامیہ کی اہمیت و افادیت اور مسلم معاشرے پر ان کے ان کے احسان عظیم کا تذکرہ کرتے ہوئے، علامہ سید سلیمان ندوی رحمةاللہ علیہ رقم طراز ہیں:”ہم کو یہ صاف کہنا ہے کہ اسلامی مدرسوں کی جتنی حاجت و ضرورت آج ہے،کل جب ہندوستان کی دوسری شکل و صورت ہوگی تو اس سے بڑھ کر ہوگی،یہ ہندوستان میں اسلام کی بنیاد اور مرکز ہوں گے، لوگ آج کی طرح کل بھی عہدوں اور ملازمتوں کے خواہشمندوں وطلبگار اور ارباب اقتدار کی چاپلوسی میں لگے ہوں گے،اور یہی دیوانے آج کی طرح کل بھی ہوشیار رہیں گے،اسلئے یہ مدارس ومکاتب جہاں بھی ہوں، جیسے بھی ہوں، ان کا سنبھالنا، اور چلانا،مسلمانوں کاسب سے بڑا فریضہ ہے،اگر ان دینی مدارس کا کوئی دوسرا فائدہ نہیں، تو یہی کیا کم ہے ؟کہ یہ غریب طبقوں مییں مفت تعلیم کا ذریعہ ہیں، اور ہمارا غریب طبقہ ان سے فائدہ اٹھا کر، ترقی کے منازل طے کرتاہے "،حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة اللہ علیہ مدارس کے بارے میں یوں گویا ہیں:”اس وقت مدارس علوم دینیہ کا وجود مسلمانوں کے لئے ایسی بڑی نعمت ہے کہ اس سے بڑھ کر کوئی دیگر نعمت متصور نہیں، دنیا میں اگر اسلام کے بقاء کی کوئی صورت ہے تو یہ مدارس ہیں”۔(حقوق العلم)
مدارس اسلامیہ کا اساسی اور بنیادی مقصد یہ ہے کہ ایک مسلمان ایمانی عقائد اور اسلامی شعائر کے ساتھ آراستہ وپیراستہ رہے، اسلامی تہذیب و تمدن کےساتھ زندگی گذارنے اسلاف وبزرگی کے کارنامے اس کے لئے مشعل راہ ہوں،چونکہ مدارس اسلامیہ مردم سازی اور رجال سازی کے کارخانے ہیں، مدارس اسلامیہ نے دنیائے انسانیت کو اتنا کچھ دیا ہےکہ، جس کا ہم تصوربھی نہیں کرسکتے ۔انہی مدارس اسلامیہ نے،دنیائے انسانیت کو شیخ عبدالقادر جیسا مصدق،امام غزالی جیسا معرف ،امام اعظم ابو حنیفہ جیسا فقیہ،مجدد الف ثانی جیسا بے باک ونڈر،حجة الاسلام مولانا قاسم نانوتوی جیسا قاسم العلوم، مولانا اشرف علی تھانوی جیسا مفکر،شیخ الھند جیسا مجاہد،علامہ انور کشمیری جیسا محدث،مولانا حسین احمد مدنی جیسا اولوالعزم ،مولانا ابوالکلام آزاد جیسا سیاسی سوچ کا مالک، مفتی شفیع عثمانی جیسا مفسر،قاری طیب جیسا مدبر، ابوالحسن جیسا دور اندیش،مولانا محمد الیاس کاندھلوی جیسا مبلغ،قاری صدیق احمد جیسا مربی،شاہ ابرارالحق جیسا مصلح عطا کیا ہے،اس طرح سے ہندوستان کی آزادی وتحریک آزادی میں اساسی ونمایاں کردار انہی مدارس کے پروردہ وپرداختہ جیالوں نے اداکیا،مدارس عربیہ نے اپنے دین اور ملک سے مودت و محبت والفت کا سبق سکھایا ہے،مدارس دینیہ نے ماں کی آغوش سے لیکر قبر کی آغوش میں رسیدگی تک زندگی گذارنے کا صحیح اور درست طریقہ فراہم کیا ہے ۔
آج مدارس اسلامیہ کو دہشتگردی کا مرکز اور اڈاقرار دیا جارہاہے، مدارس عربیہ کو ہدف ملامت بنایا جارہا ہے،انہیں بیکار اور ناکارہ سمجھا جاتاہے،ان کے مدرسین اور طلبہ کو شکوک وشبہات کی نگاہوں سے دیکھا جارہاہے، انہیں جگہ جگہ ہراساں وپریشان کیا جارہا ہے ۔کبھی ان کی پگڑی
نیز یہ بات بھی کسی فرد بشر سے مخفی نہیں ہے کہ شدید اور مہلک وبا” کرونا وائرس "کی وجہ سے پورے ممالک میں لاک ڈاؤن کا نفاذ جو عمل میں آیا ہے ،اس سے پورے عالم کے عوام الناس پریشان ہیں بالخصوص اہل مدارس پریشان ہیں، کیونکہ ہرسال مدارس کے نظماءوصدراء ماہ مقدس رمضان المبارک میں اپنے کارکنان، سفراءاور اساتذہ حضرات کو ملک کے اکناف واطراف میں بغرض فراہمی مال بھیجتے تھے تاکہ معاونین، محبین، مخیرین،متوسلین اور دین کے بہی خواہوں ملت کے درد رکھنے والوں سے زکواة،صدقات وعطیات کی رقومات وصول کریں، کیونکہ مدارس کے ظاہری نظام کا دارومدار اسی تبرعات مالیہ پر ہو تاہے،لیکن افسوس کہ اس سال رمضان المبارک بھی "لاک ڈاؤن "کے درمیان آیا جس کی وجہ سے مدارس کے مہتممین ومتولیین اپنے کارکنان، سفراءاور اساتذہ حضرات کو آپ تک بھیجنے سے قاصر وعاجز ہیں،لھذا جو حضرات مداومت کے ومواظبت کے ساتھ مدارس کاتعاون کرتے تھے وہ اس سال بھی تعاون کو جاری وساری رکھیں، اس میں ہر گز سستی وغفلت سے کا نہ لیں۔تعاون کی صورت ہے کہ "آنلائن تعاون کی رقم ارسال فرمادیں، یا ادارے کے حصے کی رقم اپنے پاس محفوظ رکھیں، بعد میں جب حالات خوشگوار وموافق ہوجائیں تو مدارس کو پہنچادیں ۔
دعا کریں کہ خدائے ذوالمنن ایسے ناگفتہ بہ حالات میں مدارس اسلامیہ کا دامے درمے قدمے سخنے تعاون فرمانے کی توفیق عطا فرمائے