ہندوؤں کے اندرخطرہ محسوس کرنے کی صلاحیت بالکل صفر ہے، طالبان سر پر آچکا ہے اور ہندوؤں کو ہوش نہیں ہے۔
محمد رفیع
9931011524
rafimfp@gmail.com
طالبان آج خوف و دہشت کا متبادل بن گیا ہے کوئی اسے مجاہد آزادی تو کوئی دہشت گردوں کا فیکٹری اور افیم کا کاروباری بتا رہا ہے۔ لیکن اس پہلو پر کم ہی لوگ سوچتے ہوں گے کہ طالبان جس شریعت کی بات کرتا ہے اس میں نہ تو دہشت گردی کو کوئی مقام حاصل ہے نہ نشا کو، نہ حق تلفی کو نہ بربڑتا کو اور نہ ہی عورتوں کے عزت کے پامالی کو۔ شریعت پر چلنے والا نہ تو تعلیم کا دشمن ہوگا، نہ تعلیم نسواں کا، نہ وہ انسان کا دشمن ہوگا اور نہ ہی انسانیت کا۔ طالبان شریعت کی بات کرتا ہے ۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ طالبان حکومت کو شریعت کے مطابق چلائے گا۔ تو آپ سمجھ لیں شریعت میں اعتدال ہے وہ نہ تو کسی کے ساتھ زیادتی کو پسند کرتا ہے نہ کسی کے حقوق کی پامالی کو۔ مگر امریکہ نواز حکومت و عوام غلط فہمیاں پھیلانے میں مشغول ہیں۔ افغانستان میں شریعت کا قانون قائم ہو رہا ہے اور ہندوستان میں نفرتیں۔ میں اس کی بانگی پیش کر رہا ہوں جو آج کل ہندوستان میں سوشل میڈیا پر گردش کر رہا ہے۔ وہ لکھتے ہیں، ہندوؤں کے اندرخطرہ محسوس کرنے کی صلاحیت بالکل صفر ہے، طالبان سر پر آچکا ہے اور ہندوؤں کو ہوش نہیں ہے۔
-طالبان افواج میں پشتون نسل کے جنگجوؤں کی تعداد سب سے زیادہ ہے، پشتون کا مطلب پٹھان ہے۔ احمد شاہ ابدالی بھی ایک پشتون تھا (آج کے طالبان کے آباؤ اجداد) جب پانی پت کی تیسری جنگ 1761 میں ہوئی تھی ، اس جنگ کے بعد ہزاروں ہندو خواتین کو افغانوں نے غلام بنا لیا تھا۔ ہر افغان کیمپ میں 10-10 ہندو خواتین بندی تھیں جن کی دونوں ہاتھیں اوپر بندھی ہوئی تھیں تاکہ جب وہ زنا جیسی زیادتی کا نشانہ بنیں تو مزاحمت نہ کرسکیں۔ (ماخذ- کتاب-پانی پت ، مصنف- وشواس پاٹل)
یہ واقعہ اس لئے بتانا ضروری تھا کیونکہ احمد شاہ ابدالی پانی پت کی تیسری جنگ میں غلبہ حاصل نہ کر پاتا اگر اس کی فوج کو کسی ہندوستانی نے جمنا پار کرنے والے پتلا راستہ کا پتہ کوئی ہندوستانی نہ بتایا ہوتا۔ ایک ہندو بصیرت نہیں رکھتا اور وہ ہمیشہ فوری حاصل ہونے والے فوائد کی تلاش میں رہتا ہے۔ اس کے مطابق ، چند سونے کے سکوں کی لالچ میں ہندو نے ہی افغان حملہ آور احمد شاہ ابدالی کو بتا دیا تھا کہ سیلاب سے بہنے والے جمنا کو عبور کرنے کا پتلا راستہ کہاں سے ہے۔
آج طالبان پوری قوت و جوش و خروش کے ساتھ کابل پر قابض ہو چکا ہے اور ان طالبان جنگجوؤں کے ہاتھوں میں لوٹی ہوئی امریکی ہتھیار ہے اور ان کا سب سے بڑا خواب یہ ہے کہ وہ کافروں کی سب سے بڑی سرزمین بھارت کو کسی طرح دارالاسلام بنا دیا جائے۔ یہ وہی خواب ہے جو اس کے آباؤ اجداد احمد شاہ ابدالی اور نادر شاہ نے دیکھا تھا۔
اب طالبان ، جنہیں ابدالی اور نادرشاہ کی وراثت ملی ہے ، نے پورے افغانستان پر قبضہ کر لیا ہے اور ان کے پاس ساڑھے سات ہزار کی پوری افغان فورس ہے جو امریکہ نے تیار کی تھی اور ان کے پاس امریکہ کا جدید ترین ہتھیار اور لڑاکا طیارے ہیں۔ ایسی صورت حال میں ، اب بھارت پر ایک بڑا خطرہ منڈلا رہا ہے کیونکہ یہ طالبان ہیں جو اپنی جان کی پروا نہیں کرتے کیونکہ ان کے پاس جنت کے حوروں کی پیشکش ہے جو انہیں آسمانی کتاب سے ملی ہے۔ لیکن ہندو اپنی زندگی کے بارے میں فکر مند نہیں ہیں کیونکہ انہیں آنے والے خطرے کا کوئی اندیشہ نہیں ہے۔
معاف کیجئے گا، سخت الفاظ ہیں، لیکن ہندو نے کھانے، پیشاب کرنے اور جنسی خواہشات کو ہی زندگی سمجھ لیا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ وہ یہ بھی نہیں جانتا کہ جس نظریہ سے طالبان پیدا ہوا ہے اس کا سب سے بڑا دیوبندی نظریات کا مدرسہ سہارنپور، اتر پردیش ، بھارت میں ہے جو دارالعلوم دیوبند کہلاتا ہے۔
ہندو یہ بھی نہیں جانتے کہ طالبان کی بنیاد رکھنے والے ملا عمر 1994 میں سہارنپور ، اتر پردیش ، بھارت میں دیوبند سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد افغانستان چلے گئے اور پھر وہاں طالبان کو قائم کیا۔
ہم وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے خطرے کو محسوس کیا اور اے ٹی ایس کو 2 ہزار مربع میٹر زمین دے کر دیوبند میں کمانڈو سنٹر بنانے کا منصوبہ تیار کیا۔
ہندو اس شتر مرغ کی طرح ہے جس نے اپنی گردن سیکولرازم اور عدم تشدد کی ریت میں دفن کر دی ہے اور محسوس کرتا ہے کہ وہ محفوظ ہے۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ میڈیا میں ہونے والی بحثوں میں امریکہ کو لعن طعن کیا جا رہا ہے۔ وہ امریکہ جس نے نہ صرف افغانستان میں اپنے 2 ہزار فوجیوں کی قربانی دی بلکہ اپنے 60 لاکھ کروڑ روپے افغانستان میں لگائے۔ پوری دنیا اس کو گالی دے رہی ہے جس نے طالبان کو 20 سال تک قابو میں رکھا، گالی دوامریکہ سے کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ لیکن میڈیا کے مباحثوں میں موضوع یہ ہونا چاہیے تھا کہ اس کا بھارت پر کیا اثر پڑے گا؟
ٹی وی اسٹوڈیو میں بیٹھے والے اینکرز نے نہ تو قرآن پڑھا، نہ شریعت، نہ حدیث اور نہ ہی انہیں تاریخ کا کوئی علم ہے۔ انہیں یہ بھی معلوم نہیں ہوگا کہ پٹھانوں نے ہندوستان پر کب اور کتنی بار حملہ کیا ہے۔ ان ناخواندہ اینکرز سے کسی اور چیز کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ مباحثوں میں ، یہاں تک کہ جب کوئی آرمی آفیسر کچھ صحیح کہنے کی کوشش کرتا ہے ، تو اسے خاموش کرا دیا جاتا ہے۔ اور اس سے یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ اب افغانستان میں خواتین کی کیا حالت ہوگی؟
ٹی وی مباحثوں کے ناخواندہ اینکر شریعت کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ وہ بے کار عورتوں پر بحث کر رہے ہیں۔ یہاں بھارت میں کون سا طالبان ہے، لیکن یہاں تمام مسلمان خواتین برقع پہن کر بازار جاتی ہیں۔ اصل موضوع برقعہ نہیں بلکہ ہندوستان کی سلامتی ہونی چاہئے تھی۔اس موضوع پر کسی ٹی وی چینل پر ایک بار بھی بحث نہیں ہوئی۔
جو سمجھدار ہندو ہیں وہ اقلیت ہے، یعنی ان کی تعداد بہت کم ہے۔ مجھے ان سے کوئی شکایت نہیں ہے۔
میں باقی ہندوؤں سے کہنا چاہتا ہوں کہ کم از کم صحیح پارٹی کو ووٹ دیں تاکہ اجیت ڈوول قومی سلامتی کے مشیر رہیں کیونکہ کوئی ایسا شخص ہے جو خطرے کا پیشگی اندازہ لگانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
اس مضمون سے ہمیں تجربہ حاصل ہوتا ہے کے کس طرح ہندوستان میں حقیقت کے برعکس کام ہو رہا ہے اور نفرت پھیلائے جا رہے ہیں، جو سچ بولنے کی ہمت کرتا ہے اسے ذلیل کیا جارہا ہے، ملک سے گداری کا ان پر مقدمہ کیا جا رہا ہے۔ رخصت پزیر جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے کہا ہے کہ افغانستان سے عالمی برادری کو دہشت گردی کا کوئی شدید خطرہ نہیں ہے ، انہوں نے مزید کہا کہ فی الحال القائدہ یا دیگر مسلم گروپوں کی طرف سے دوسرے ممالک کو کوئی شدید دہشت گردی کا خطرہ نہیں ہے۔ مگر مسلمانوں کی حالت ہے کہ
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتا ہے تو چرچا نہیں ہوتا