مظفر نگر سانحہ، ذمہ دار کون؟

چند روز قبل مظفر نگر کے ایک کیفے میں جو سانحہ پیش آیا، کیا اس کی کوئی توجیہ پیش کی جاسکتی ہے؟ پہلے سانحہ کو سمجھیں؛ کیفے سے، جس کے اندر چھوٹے چھوٹے کیبن بنے ہوئے تھے، ایک چھاپہ میں طلبہ و طالبات پکڑے گیے ۔ یہ اندر کیا کر رہے تھے، اس کی تفصیل میں جانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ جب طلبہ وطالبات کالج کی بجائے کسی کیفے کے چھوٹے سے کیبن سے برآمد کیے جائیں، تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ اندر بیٹھ کر پڑھائی کر رہے تھے۔ یقینا وہ عشق اور محبت کا کھیل کھیل رہے تھے۔ اور کالج جانے کے نام پر اپنے والدین کو دھوکہ دے رہے، اپنے محلے کو بد نام کر رہے، اور اپنے وجود کو ذلت کی دلدل میں غرق کر رہے تھے۔ جو لڑکے اور لڑکیاں چھاپے میں پکڑے گیے ، وہ ہر مذہب اور ذات کے تھے لیکن اکثریت مسلم طالبات کی تھی ! مسلم طالبات وہ بھی برقعہ اور باحجاب! ایک خبر آئی ہے کہ اس افسوس ناک سانحہ پر۔ یہ ہم سب کے لیے سانحہ ہی ہے۔ مظفر نگر کے چند با عزت مسلمانوں نے با قاعدہ ایک میٹنگ لی ، اور معاملہ کی چھان بین کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے ۔

دیر آید درست آید

کمیٹی کی تشکیل بھی ضروری ہے ، اور معاملہ کی چھان بین بھی۔ لیکن ان با عزت اور محترم شخصیات سے ایک سوال ہے : اتنی دیر کیوں لگادی نیند سے جاگنے میں؟ یہ کوئی ایک روز کا معاملہ تو نہیں تھا، پتا چلا ہے کہ اس کیفے میں ( اور مزید ایسے ہی کیفوں میں سب کھلے عام ہوتا رہا ہے، اور آتے جاتے لوگ، طلبہ وطالبات کو کیفے میں جاتے اور کیفے سے باہر آتے دیکھتے بھی رہے ہیں! کیوں لوگ نہیں جاگے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے کوہ قاف پر جانے کی ضرورت نہیں ہے، جواب سامنے ہے ، مسلمان نیند میں رہنا پسند کرتے ہیں ، اس لیے۔ انہیں کوئی واردات ، سانحہ یا معاملہ اس وقت سنگین اور شرم ناک لگتا ہے، جب چڑیاں کھیت چگ جاتی ہیں ، اور ان کی زبان سے نکلتا ہے ، ارے ہم تو یہ سب دیکھ رہے تھے ۔ مسلم لڑکیوں کی بے راہروی اور ان میں ارتداد کی لہر کا الزام فوراً ہند تو ادیوں کی سازش اور منصوبہ بندی پر دھر دیا جاتا ہے، ہم جیسے لوگ بھی ہاں میں ہاں ملانے لگتے ہیں لیکن اپنے گریبان میں جھانکنا بھول جاتے ہیں ۔ کیا ہم ذات پات کے عفریت کے شکار نہیں ہیں؟ ہیں ، اس لیے ایک بڑی تعداد میں لڑکیاں عمر ڈھل جانے کے بعد بھی غیر شادی شدہ رہ جاتی ہیں، یا کسی بوڑھے کے ہاتھوں تھمادی جاتی ہیں۔ کیا ہم شادی کے لیے ایسی لڑکیاں تلاش نہیں کرتے جو اپنے ساتھ جہیز لائیں؟ جی ، ایسا ہے، اور اس کے نتیجہ میں لڑکیاں بیٹھی رہتی ہیں، راہ سے ہٹ جاتی ہیں۔ شادی کو بہت مشکل بنا دیا گیا ہے، اس لیے کچھ والدین ایسے بھی پائے جاتے ہیں، جو غربت کے سبب یہ چاہتے ہیں کہ ان کی بیٹیاں اپنے لیے خود کوئی ہر ڈھونڈ لیں، اور وہ اکثر بر غیروں میں ڈھونڈ لیتی ہیں۔ کیا ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے اپنے بچوں کو ایمان کی دولت سے مالا مال کیا ہے؟ نہیں کہہ سکتے ، کیونکہ اب مسلم لڑکیاں غیروں کے ساتھ بیاہ کرنے لگی ہیں، اپنا ایمان تجنے لگی ہیں ، اور لڑکے بھی ایسا ہی کر رہے ہیں ۔ ہم اپنے فرائض کی ادائیگی سے معذور ہیں، اس لیے بھگوائیوں پر سارا دوش ڈال دیتے ہیں۔ کیا ہم نے یہ کوشش کی کہ مسلم بچیوں کے لیے تعلیمی ادارے بنائے جائیں؟ کیا مذہبی قیادت ، سیاسی اور سماجی قیادت کے پاس کوئی منصوبہ ہے کہ بچیاں تعلیم بھی پائیں اور غیروں کے اختلاط سے محفوظ بھی رہیں؟ کیا مسلم سیٹھوں کے پاس عام مسلمانوں کی غربت دور کرنے کا کوئی حل ہے تا کہ یہ غربت کے سبب اپنی بچیوں کو بربادی کی طرف نہ ڈھکیل سکیں؟ کوئی حل نہیں ہے، اکثر مسلمان سیٹھ بس عیش کر رہے ہیں ، اور ان کی اولاد میں بھی ۔ گل کو ان سے پوچھ کچھ ہوگی ، اور اس کا وہ کوئی جواب نہیں دے سکیں گے، کیونکہ سوال کرنے والی ذات اللہ رب العزت کی ہوگی۔

تحریر: شکیل رشید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے