ازقلم: مدثراحمد، شیموگہ کرناٹک۔998643732
اتر پردیش انتخابات کو لیکرجس طرح سے ملک میں سیکولر حکومتوں کو بحال رکھنے کے خواہشمندشہری پُر اُمیدہیں،وہ آہستہ آہستہ اس بات سے پریشان ہوتے جارہے ہیں کہ نام نہاد سیاسی پارٹیاں،جماعتیں اور سیاستدان ابھی سے منصوبہ بند طریقے سے کام کرنے کے بجائے اپنی اپنی دعویداری کو پیش کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں اوران کی دعویداری یوپی انتخابات میں کامیاب ہونے سے زیادہ ایک دوسرےکو توؑڑنے، شکست دینے ،ختم کرنے اور اپنے وجود کو ظاہرکرنے کیلئے ہے ۔ مجلس، پیس، مسلم لیگ،کانگریس، ایس پی،بی ایس پی،آرجے ڈی،ایس ڈی پی آئی،جے ڈی یو،عام آدمی پارٹی یہ سب بی جے پی کا مقابلہ کرنے کیلئے اُترے ہیں ، لیکن پوری بی جے پی ایک ہوکر ان کے سامنے پنجہ لڑانے کی تیاری میں ہے،بی جے پی کو پورا یقین ہے کہ وہ کامیاب ہوجائیگی۔کیونکہ مذکورہ جتنی بھی سیاسی پارٹیاں ہیں وہ جھاڑو کی کاڑیوں کی طرح الگ الگ ہوچکی ہیں،جبکہ بی جے پی ہندوتوا کے نام پر متحد ہوکر میدان میں اُتررہی ہے۔بھلا بتائیے کہ ایک ایک کاڑی کو توڑنا آسان ہےیاپھر پوری سالم جھاڑو کو توڑا جاسکتاہے۔کہنے کو تو ہر پارٹی میں سیکولر، دانشمند،حکمت والے، عقلمند،دوراندیش لوگ موجودہیں،مگر اس وقت سب کے سب اپنے مفادات کا چولہ پہن کر قوم،ملت ، مذہب اورجمہوریت کے ساتھ کھلواڑ کررہے ہیں۔بھارت میں اس وقت جو سیکولرزم کے نام پر پارٹیوں کاقیام ہورہاہے،وہ ہندوتوا کے نام پر کہیں نہیں ہورہاہے۔پچھلے70 سالوں سے سنگھ پریوار ایک تھا ، ایک ہے اور ایک ہی رہیگا۔کیونکہ سنگھ پریوار کسی جماعت یا گروہ کا نام نہیں بلکہ فکر کانام ہے اور اس فکرکو عملی جامہ پہنانے کیلئے سنگھ پریوار ہمیشہ متحد رہے گا ۔ لیکن ان کے مدِ مقابل میں رہنے والی سیکولر جماعتوں نے فکر کو بڑھاوادینے سے زیادہ مفادات کو بڑھاوا دیا ہے۔آج سیکولرزم کے نام پر بے تحاشہ ووٹوں ، پارٹیوں اور لیڈروں کا بٹوارا ہورہاہے، مگرسنگھ پریواریا فرقہ پرستوں کا بٹوارا نہیں ہورہاہے۔سیکولرزم کی کھچڑی میں جو گھی ڈالنے کا چمچہ استعمال کیا جارہا ہے وہ چمچہ الگ الگ برتنوں میں بکھررہاہے۔کیونکہ اس میں بے انتہاء چھید ہیں، جبکہ سنگھ پریوارکی کھچڑی میں جو گھی ڈالا جارہا ہے ،وہ سیدھے کچھڑی کے برتن میں جارہا ہے ۔ اگر آج آپ کو کوئی یہ کہہ رہا ہے کہ وہ سیکولر طاقت کو مضبوط کرنے کیلئے سیاسی جماعت کا قیام کررہاہے تویہ ایک دُکان ہے،اس میں سیکولرزم کا سامان مل رہا ہے ۔ اگر واقعی میں وہ شخص یا گروہ جمہوریت و سیکولرزم کی بقاء کیلئے کام کرنا چاہتا تھاتووہ اپنی طاقت انفرادی طورپر نہیں آزماتا،بلکہ اجتماعی طاقت کے ساتھ ہوتا۔اُتر پردیش کے انتخابات سارے ملک کیلئے مثال ثابت ہوسکتے ہیں،کیونکہ یوپی کی سر زمین ایک طرح سے سارے بھارت کیلئے لائٹ ہائوز کی مانندہے اور یہیں سے سیاست کے چراغ جلتے ہیں۔بھارت کے لوگوں کے پاس یہ وقت ہے سنبھلنے اورمحتاط ہونے کا کہ وہ بھارت کی تقدیرکو ٹکڑوں میں بانٹنے کے بجائےچند حصوں میں بانٹ کربھی ایک ہندوستان بناسکتے ہیں ۔ یہاں وجود کو آزمانے کا موقع نہیں ہے بلکہ وجود کو بچانے کا وقت آیاہواہے، آزادی کے بعد جب کانگریس اکیلی طاقتور تھی تو اُس وقت بھارت کے لوگ جو آج الیکشن کو تجربہ گاہ بنانے کی کوشش کررہے ہیں وہ اُسی وقت اپنے وجود کیلئے تجربے کرسکتے تھے۔ہاں اب بھی اپنی طاقت اور وجود کو ظاہر کرنے کیلئے تجربے کئے جاسکتے ہیں،لیکن اس کیلئے پہلے چھوٹے اکھاڑوں میں نبرد آزما ہونے کی ضرورت ہے،نہ کہ بیچ بھنورمیں جاکر غوطے لگانے کی کوشش کرنی چاہیے۔یقیناً
یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتحِ عالم۔۔۔۔اور اسی یقین کے ساتھ ہمیں محنت وجدوجہد کے ساتھ آگے آنے کی ضرورت ہے۔