متحرک ہوجائیں!!!

ازقلم: مدثراحمد، شیموگہ کرناٹک
9986437327

اس وقت ملک میں جس طرح کے حالات رونما ہوئے ہیں وہ ایمرجنسی کے حالات سے کم نہیں ہیں۔ اندراگاندھی کے دورمیں جو ایمرجنسی نافذ کیاگیاتھااُس میں اعلانیہ طو رپر ایمرجنسی کانفاذ ہواتھا،لیکن اس وقت غیر اعلانیہ ایمرجنسی کا دورچل رہاہے،یا اُس سے بدتر کہاجائے توبرٹش راج چل رہاہے،فرق اتنا ہے کہ یہاں برٹش حکمران نہیں بلکہ گجراتی حکمران دیش کا دلوالیہ نکالنے کیلئے تیار بیٹھے ہیںا ور سارا بھارت خاموشی کے ساتھ ان گجراتی لوٹیروں کو دیکھ رہاہے۔انگریزوں کی آمد سے پہلے بھارت کو سونے کی چڑیا کہاجاتاتھا،جب انگریز اس ملک کو لوٹ لے گئے تو یہ سونے کی چڑیا خارش زدہ چڑیا کی طرح ہوچکی تھی۔پھر آزادی کےبعد جوں توں کرتے ہوئے خارش زدہ چڑیا کاعلاج شروع کیاگیااور کم ازکم چاندی کی چڑیاں کی سطح پر لاکھڑاکیاگیا،لیکن کیا پتہ تھاکہ سال2014 کے بعد سے بھارت کی نیلامی شروع ہوجائیگی اور چاندی کی چڑیاپھر ایک مرتبہ خارش زدہ چڑیا بننے لگے گا۔بھارت میں آزادی کے بعد یوں تو تیزی کے ساتھ نہ سہی کم ازکم کوشش کے ساتھ ترقی کا آغازہوا،بھارت نے اپنا الیکٹرانک،ڈیجٹیل،زراعت،صنعت، ریلوے،روڈ لائنس،پورٹ،ایئر انڈیا،بی ایس این ایل،مضبوط بینکنگ سسٹم،ہیلتھ سسٹم کا آغازکیااوران سیکٹر س سےسالانہ لاکھوں روزگارکے مواقع بڑھنے لگے اور بھارت کے یہ تمام شعبے ترقی کی طرف گامزن ہوئے۔لیکن کیا پتہ تھاکہ گجرات کے بنیئے بھارت کوآہستہ آہستہ بیچنے کیلئے حکومت پر قابض ہوجائینگے۔سنگھ پریوار کاخواب تو بھارت کو ہندو راشٹر بنانے کاتھا،لیکن سنگھ پریوارکو ہی کیا پتہ تھاکہ بھارت ہندوراشٹر نہیں بلکہ بکاہوا راشٹر بن جائیگا۔اس وقت بھارت حکومت کے ماتحت جتنی صنعتیں،محکمے،ریلوے،انفارمیشن ٹیکنالوجی کے سیکٹر تھے وہ تمام سیکٹرس نجی کمپنیوں کے ہاتھ بکنے لگے ہیں ،بیچنے والے بھی گجراتی اور خریدنے والے بھی گجراتی ہوچکے ہیں اور سارا دیش گجراتیوں کو جھیل رہاہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ آخر یہ چپکی کیوں ہے؟کیا دیش کے لوگوں کیلئے مہنگائی کوئی معنی نہیں رکھتی؟،کیاہر سیاسی پارٹی کو دیش کی جنتا سے زیادہ اپنی فکرہے،جو ان سنگین حالات میں اپنی پارٹی کے بیانر چھوڑکرایک عام آواز اٹھانے کیلئے آگے نہیں آرہے ہیں۔دیش کے لوگ آواز اٹھانے کیلئے تیارہے،لیکن اس وجہ سے آگے نہیں بڑھ رہے ہیں کہ سیاسی جماعتیں ان کی آواز کا غلط استعمال کرتے ہوئے ان کا استحصال نہ کریں۔کوئی بھی کسی خاص پارٹی سےس جڑنا نہیں چاہتا،کیونکہ آزادی کے بعد ہر ایک سیاسی پارٹی نے اپنے اپنےرنگ دکھائے دئیے ہیں،کیوں سیکولر نہیں کیوں کمیونل نہیں،سب کے سب ضرورت کے مطابق استعمال کرنے والے لوگ ہیں۔اس لئے بھارت کی جنتا نہیں چاہتی کہ مزید کوئی ان کے جذبات،ضروریات اور مسائل کو لیکر غلط استعمال کرے اور ان کا سیاسی استحصال کرے۔اگر واقعی میں کسی بھی سیاسی جماعت کو جنتاکے مسائل سے دلچسپی ہے اور وہ واقعی میں مسائل حل کرنے کی جانب ہی توجہ دینا چاہتے ہیں تواپنے بیانرس کو چھوڑ مسائل حل کریں پھر سیاست کریں۔ہم نے دیکھاہے کہ کس طرح سے عام آدمی پارٹی بننےسے پہلے کیچریوال،جوگیندرا یادوجیسے سماجی تحریکوں سے جڑے ہوئے لوگ عوام کے مسائل کولیکر آوازا ٹھاتے رہے،اور جب مسائل کچھ حدتک حل ہونے کےکگارپر تھے تو انہوں نے سیاست کرنی شروع کی۔اب بھی موقع ہے کہ اس ملک کے لوگ ملک کوبچانے کیلئے متحرک ہوجائیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے