ازقلم: اسانغنی مشتاق رفیقی
وہ ایک صحرا تھا ہم گلستان کہتے رہے
نظر کے دھوکے کو ہم آسمان کہتے رہے
ہماری سوچ پہ تقلید کا ہی غلبہ رہا
سمے نماز کا تھا، ہم اذان کہتے رہے
زمانہ چاند ستاروں کو فتح کرتا رہا
ہم اپنی نسلوں سے بس داستان کہتے رہے
ہماری عقل میں یہ بات دیر سے آئی
حقیقتیں تھیں جنہیں ہم گمان کہتے رہے
خدا کی ذات کو محدود کردیا ہم نے
جو "لامکاں” ہے اُسے "ہم مکان” کہتے رہے
ہماری آنکھوں پہ پردے پڑے رہے اکثر
غبارِ راہ کو ہم کاروان کہتے رہے
عقیدتوں کا نشہ ہم پہ اس قدر تھا چڑھا
خطیبِ شہر کی بڑ کو بیان کہتے رہے
پتہ چلا ہمیں جب لٹ چکی متاعِ حیات
لُٹیرے تھے جنہیں ہم پاسبان کہتے رہے
رفیقیؔ ہم نے کسی کو بُرا نہیں سمجھا
امیرِ شہر کو بھی مہربان کہتے رہے