ازقلم: مدثراحمد، شیموگہ کرناٹک
9986437327
کچھ عرصے قبل جب خواتین بن سنور کر نکلا کرتی تھیں تو لوگ انہیں ٹپ ٹاپ لیڈیزکہا جاتا تھا۔ اب زمانہ بدل چکا ہے لیڈیز ٹپ ٹاپ سے آگے بڑھ کر ٹک ٹاک لیڈیز بن چکے ہیں۔ گھریلوو نوکری والی عورتیںاب یوٹیوبر ، فیس بکر اور ریل والی خواتین بن چکے ہیں۔ کل تک جو عورتیں پردہ پوش، نقاب پوش ہوکر نوکریوں کو جاتی تھیںاب وہ برقعہ و حجاب میں رہ کرہی سوشیل میڈیا پر اپنے جلوے بکھیرنے لگے ہیں۔ کوئی میکپ میں آکر درس قرآن دے رہی ہیں تو کوئی نبی ﷺ کی حدیثوں کو اپنے ناز ونخروں و سریلی آواز سے بیان کررہی ہیں۔ ایک طرف امت مسلمہ میں مرتدد ہونے کے سلسلے کو لیکر امت کے قائدین ، رہنما ورہبر ، سلسلہ وار بیانات جاری کررہے ہیں اورخواتین کو انکی ذمہ داریوں کا احساس دلارہے ہیں ، لیکن ایسا لگ رہا ہے کہ یہ تمام احساسات فوت ہوتے جارہے ہیں اورحقوق نسواں وآزادی نسواں کے نام پر اپنی نمائش کرنا خواتین نے اپنا فرض سمجھ رکھا ہے۔ یقیناً اس دنیا میں کوئی پارسا نہیں ہے اورنہ ہی کوئی فرشتہ صفت ہے باوجود اسکے جو حدود شریعت نے بیان کئے ہیں اس پر عمل کرنا بے حد ضروری ہے۔ سوشیل میڈیا میں ہی دیکھئے کہ مائیں اپنی بیٹیوں کے ساتھ ٹک ٹاک ویڈیوز بنارہی ہیں۔ گانوں پر ناچ رہی ہیں۔ باپ اپنی بیٹی کے ناچنے پر خوش ہورہا ہے اورشیئر کرتے ہوئے فخر محسوس کررہا ہے۔ کل تک ٹی وی دیکھنا معیوب سمجھا جاتا تھا، گانے سننا گناہ کبیرہ کہا جاتا تھالیکن اب یہ تمام حرکتیں عملی طور پر انجام دی جانے لگی ہیں۔ جسے لوگ ماڈرن زمانہ کہہ کر مخاطب کررہے ہیں اور اسے اپنے بچوں کی ایبیلیٹی(Ability) اور ٹیالینٹ کا نام دیا جارہا ہے۔ یقیناً اسطرح کی حرکتیں انجام دینا ایک ٹیلنٹ ہی ہے لیکن اس ٹیلنٹ کے اکثر نمونے ایسے نکلے ہیں کہ مسلم بچیاں مسسزشرما، مسسز راجو، مسسز گپتا یا پھر راجو رامو کی بیوی کہلارہی ہیںاور ہم ہیں کہ اصلاح معاشرے کیلئے ان لوگوں کے سامنے خطبہ دے رہے ہیں جو خوف خدا کو دل میں بساکر مسجدوں میں صفِ اول بیٹھے ہوئے ہیںاور ناچنے والے سوشیل میڈیا پر خوب ناچ رہے ہیں۔ یقیناً یہ باتیں کڑوی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ جو عورت آج یوٹیوبر ،ہوگی اسکے یہاں کل اسکی بہو ٹک ٹاکر ہی آئےگی اورایسےیوٹیوبر ، ٹک ٹاکر ساس بہو سے امت کی بھلائی کیسے ممکن ہوگی؟۔ ان سے آنے والی نسلیں سلمان خان وشاہ رخ خان ہی پیدا ہوںگےیا پھر زیادہ سے زیادہ نشیلے ، و گانجڑ بچے ہی نشونما پائیں گے۔ سوشیل میڈیا کا استعمال غلط نہیں ہے لیکن اس سوشیل میڈیا کا استعمال غلیظ طریقے سے کیا جارہا ہے۔ یہی غلط بات ہے۔دیکھئے کہ سوشیل میڈیا پر کسطرح سے خواتین کی پوسٹ پر ہر کوئی لائک، کمینٹس کرتا ہوا دیکھائی دیتا ہےاور کسطرح سے الفاظ میں ہی برہنہ کردیتا ہے یاپھر اس قدر گند پھیلا دیتا ہے جیسے کہ اس نے ان حالات پر پی ایچ ڈی کررکھی ہو۔ بہت سارے موقعوں پر دیکھا گیا ہے کہ لوگ ان ایسے خواتین کی اصلاح کرنے کے بجائے انکی ہمت افزائی کرتے ہیں اورانہیں غلط راہ پر جانے سے نہیں روکتے۔ کتنے ہی ایسے واقعات رونما ہوچکے ہیں جس میں سوشیل میڈیا کا استعمال کرنے والی مسلم خواتین کا استحصال کیا گیا ہے یا پھر انہیں غلط راہ پر لے جاتے ہوئے انہیں بلیک میل کیا گیا ہے۔ آئے دن اسطرح کی خبریں اخبارات میں عام ہیں لیکن ان خواتین کو روکنے کیلئے باضابطہ طور پر پیش رفت نہیں کی جارہی ہے۔ ہر گھر میں کم ازکم ایک خاتون کا فیس بک اکائونٹ ہوگاجو شروعات میں فیملی و فرنڈس کیلئے رہتا ہے ، بعد میں یہ پبلک کیلئے عام ہوجاتا ہے۔ بھلا بتائے کہ جو عورت گھر سے باہر نکلتے وقت پردہ کرتی ہو،وہ سوشیل میڈیا میں کیسے بے پردہ ہوجاتی ہے۔ یہاں تک کہ اسکی خوبصورتی کی تعریفیں سن کر روز بروز وہ کم لباس ہونے لگتی ہے۔ یہ سوشیل میڈیا کی سچائی ہے جسے بہت کم لوگ جانتے ہیں ۔ اسلئے مرتدد ہونے کے سلسلے کو اگر واقعی میں بریک لگانا چاہئے ہیں تو سب سے پہلے سوشیل میڈیا میں سرگرم بہو، بیٹی وبیویوں کو ہوش میں لائیں اورانہیں راہ راست پر لانے کیلئے جدوجہد کریں ،کیونکہ سوشیل میڈیا کا نشہ یوں ہی نہیں اترتا، اب اگر یہ کہا جائےکہ اسطرح کی پابندی مردوں پر کیوں نہیں ہے تو اسکا جواب یہ ہوگا کہ جب کھانا ڈھانک کررکھاجاتا ہے تو مکھیاں اس پر نہیں بیٹھتے اورنہ ہی مکھیوں کے جراثیم کھانے پر آتے ہیں۔