ازقلم: مدثراحمد، شیموگہ، کرناٹک
9986437327
جنوبی ہندمیں آزادی کے بعد تعلیم کے تعلق سے بہت کم ایسے ادارے قائم ہوئےجنہوں نے عصری علو م کو مسلمانوں میں پھیلانےکا عزم لیکر تحریک کے طو رپر کام کیا،الامین تحریک بنگلورو،مدینۃ العلوم شکاری پور،کے بی این گلبرگہ اور انجمن حامئی مسلمین بھٹکل نے ریاست میں تعلیم وتربیت کو ایک مشن اور ویژن کے طو رپر اپناتے ہوئے مسلمانوں میں تعلیمی سرگرمیوں کو عام کیاہے۔ان میں اگر انجمن حامئی مسلمین کی بات کی جائے تو یہ ادارہ مسلمانوں کیلئے ایک شرف،ایک عزت اور نعمت سے کم نہیں ہے،کیونکہ اس ادارے سے ہر سال جہاں ہزاروں طلباء تعلیم حاصل کرتے ہوئے رخصت ہورہے ہیں وہیں یہ طلباء آگے جاکر اپنی انجمن کو آسمان تک لے جانے کاعزم ظاہر کررہے ہیں۔ایسے میں اس انجمن کے ذمہ داران،انجمن کی ترقی وبقاءاور کامرانی کیلئے جو جدوجہد کررہے ہیں وہ کسی جہاد سے کم نہیں ہے۔الف سے لیکر انجینئرنگ تک،ب سے لیکر مینجمنٹ تک کی تعلیم کوعام کررہے انجمن حامئی مسلمین نے ہمیشہ اور ہر دورمیں قوم وملت کے نونہالوں کو تعلیم سے آراستہ کرنے کے علاوہ برادارنِ وطن کے بچوں کو تعلیم دیکر یہ ثابت کیاہے کہ انجمن سب کیلئے ہے او ریہاں کا مقصد صرف اور صرف تعلیم دیناہے۔نہ جانے کتنے تعلیمی ادارے آزادی کے بعد بھارت میں آئے اور چلے گئے لیکن مستقل مزاجی،حکمت ،ایثاروقربانی کوسامنے رکھتے ہوئے جس طرح سے انجمن حامئی مسلمین مسلسل تعلیم کے شعبہ میں کام کررہاہے اُس کی ستائش کرنا جتنا ضروری ہے اُتنی ہی ضرورت ان اداروں کا ساتھ دینے کی بھی ہے۔کیونکہ انجمن ایک ایسا مرکزہے ،یہاں سے قوم وملت کے نو نہالوں کو ایک شناخت دلوائی جاسکتی ہے۔لیکن افسوسناک بات ہے کہ آئے د ن خود مسلمان اپنے بچوں کو مسلم تعلیمی اداروں میں تعلیم دلوانے سے کترارہے ہیں اور ان کا دعویٰ ہوتاہے کہ ہمیں کچھ ماحول بدلنے کی ضرورت ہے۔سوال یہ ہے کہ آخر مسلمان کونسے ماحول کو تبدیل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں؟۔ہم اس وقت ایک سچا واقعہ بیان کرناچاہیں گے۔
ایک مسلم صاحب جو خودمدرس تھے اور انہوں نے اپنی زندگی میں بارہا یہ کہاہے کہ مسلمانوں کے درمیان رہنا نہیں چاہیے،مسلمان قوم گندگی میں رہنے والی ہے،ان میں ڈسپلین کی کمی ہے،بہت ہی سخت قسم کے لوگ ہوتے ہیں،اس لئے میںنے اپنا گھر غیرمسلم محلے میں بنایاہواہوں اور میرے بچے بھی غیر مسلم تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرتے ہوئے آج مختلف محکموں میں نوکریاں کررہے ہیں۔اگر مسلم تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرتے تو وہ اس مقام پر نہیں پہنچتے۔پچھلے سال جب کورونا کا پہلا سلسلہ چل رہاتھا تو ان صاحب کی طبیعت بھی بگڑ گئی تھی،ان کی بیٹی نے ذمہ دارکو رجوع کرتےہوئے کہاکہ ان کے والد کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے اور اُن کو اسپتال میں داخل کراناہے۔ذمہ دارنے ان سے کہاکہ آپ اپنے کسی بھائی کو ذمہ داری دیں تو انہوں نے کہاکہ دونوں بھائیوں سےبات کرچکی ہوں لیکن وہ اس معاملے میں شامل نہیں ہونا چاہتے۔ذمہ دارنے خود انہیں اسپتال میں داخل کروایا،اس دوران انہوں نے اُس لڑکی سے پتہ درج کروانے کے سلسلے میں پوچھا تو لڑکی نے بھی اپنا پتہ دینے سے انکار کرتے ہوئے کہاکہ اگر میں اپنا پتہ دونگی تو اپنے محکمے میں مجھے متعصبانہ نگاہوں سے دیکھا جائیگااور مجھے بھی کوارنٹائن ہونا پڑیگا۔اس لئے آپ اپنا پتہ ہی دے دیں انکل مہربانی ہوگی۔اس شخص نے انسانیت کی بنیاد پراپنا پتہ دیا ،مگر تیسرے دن ہی وہ شخص انتقال کرگئے۔جب اُن صاحب کی موت کی اطلاع بیٹی کو دی گئی تو ان کی بیٹی نے کہاکہ جو بھی آخری رسومات ہیں وہ آپ کچھ لوگوں کو لیکر کرلیں،میرے بھائی تو نہیں آئینگے،میں دور کھڑے ہوکرہی آخری دیدار کرلونگی۔اب ذمہ دار شخص نے بچوں کی سوچ کو بھانپ کر اپنے طو رسے ان کی آخری رسومات اداکئے۔یقیناًان صاحب کے تینوں بچے اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے لیکن تربیت و اچھے ماحول کے نہ ملنے سے ان میں انسانیت فوت ہوچکی ہے۔انہوں نے اپنےباپ کی موت پر جو ردِ عمل ظاہرکرنا تھا وہ نہیں کرپائے،کیونکہ انہوں نے اپنی پوری زندگی پورے ایسے ماحول میں زندگی گذاری جہاں پر احساسات،جذبات،دیندار،ذمہ داری جیسی چیزیں دور دورتک دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ ہر ایک بچہ دوسرے تعلیمی ادارے تعلیم حاصل کرنے کے بعد بے حس ہوجاتاہے لیکن ہر بچے میں احساسات پیدا ہوں،زندگی کے اصول اور زندگی کا مقصدنشونما پائے اس کیلئے ایک اچھا ماحول تیارکرنے کی ضرورت ہے۔انجمن حامئی مسلمین ایسے ہی مقصد کو لیکر تعلیمی اداروں کی بنیاد رکھ رہی ہے،انجمن نہیں چاہتی کہ قوم وملت کے بچے بے راہ روی کا شکارہوں،بلکہ وہ چاہتی ہے کہ ہماری اس نسل سے بھی ابن سینا،ابن بطوطہ،عمرقیام،اے پی جے کلام،جابر بن حیان،ابن خلدون جیسے سائنسدان، مورخین اور تاریخ دان پیدا ہوں جس کیلئے انہیں اچھا ماحول فراہم کیاجائے۔انجمن حامئی مسلمین ابھی اس طاقتور شجر پر مینجمنٹ و انجینئرنگ تعلیم کےشعبے پھل پھول رہے ہیں،ایسے ذمہ داران نے مزید ایک اہم وبے باک فیصلہ لیکر انجمن میڈیکل کالج کی شروعات کاعزم کیاہے،یقیناً جو بہت بڑا قدم ہے،جو قوم وملت کے خدمت سے جذبے سے شروع کئے جانےوالاہے۔جہاں چاہ ہوتی ہے وہاں راہ ملتی ہے۔دیکھا جائے تو ریاست میں کئی مالدار لوگ ہیں،لیکن ان مالداروں میں جذبۂ خدمت محدود رہتاہے،باوجود اس کے انجمن کے بکھرے ہوئے تارے ایک کہکشاں بن کر جس جذبے سے کام کررہے ہیں وہ یقیناً تعریف کے قابل ہے۔ملت کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ انجمن حامئی مسلمین کےماتحت چلنےو الےتعلیمی اداروں کی تائیدکریں،
و
ہاں اپنےبچوں کو تعلیم کیلئے داخلہ دلوائیں،اس لئے نہیں کہ داخلہ دلواکر آپ کوانجمن کے طلباء کی تعداد بڑھانی ہے بلکہ طلباء کے مستقبل کو سنوارناہے۔کیونکہ جو عزم اور ارادہ انجمن حامئی مسلمین کا ہے وہ بہت کم تعلیمی اداروں میں ملتاہے اور یہ واقعی میں ایک بڑا تعلیمی مشن ہے۔