خیال آرائی: اسانغنی مشتاق رفیقیؔ
پہلے میں کون ہوں کیا چیز ہوں پہچانو مجھے
پھر جدھر چاہے ادھر لے چلو دیوانو مجھے
میں ہوں واعظ نہ برہمن نہ کوئی دانشور
گم شدہ خواب ہوں تعبیر سے پہچانو مجھے
میری ہر بات میں حجت نظر آئے گی تمھیں
حق کے متلاشی اگر تم ہو تو پھر مانو مجھے
میرے اندر ہے معانی کا سمندر رقصاں
میں کوئی عامی نہیں، باتوں سے پہچانو مجھے
امن اور جنگ کی دھن بھی میں بنا سکتا ہوں
آزمانا ہے تو لادو ابھی پیانو مجھے
صرف اک تم ہی نہیں شمع پہ مرنے والے
میں بھی پروانہ ہوں لو، دیکھ لو پروانو مجھے
باادب کب سے کھڑا ہوں میں رفیقی کی طرح
بیٹھ جانے دو ذرا دیر کو دو زانو مجھے