ارتداد کی لہر، لائحۂ عمل اور تدابیر

تحریر : محمد ریحان ورنگلی
متعلم : ادارہ اشرف العلوم حیدرآباد۔

مسلم لڑکیوں کے ارتداد کا مسئلہ اس وقت نازک صورت حال اختیار کرتا جارہا ہے اب یہ معاملہ اندیشوں کی حد سے نکل کر زندہ حقیقت بن چکا ہے، ہندو احیاء پرست اور شدت پسند تنظیمیں منصوبہ بند طریقہ پر مسلمان لڑکیوں کو اپنے دامنِ فریب میں پھنسا کر ان کے ایمان اور عفت و عصمت پر ڈاکہ ڈالنے میں مصروف ہیں، ملک کے مختلف علاقوں سے ملنے والی اطلاعات انتہائی تشویش ناک ہیں، لیکن اس فتنہ کی روک تھام کیلئے ملت کی طرف سے کسی اجتماعی مشورہ،منصوبہ بندی یا اقدام کی کوئی خبر نہیں آرہی ہے۔ موجودہ دور میں مسلمانوں کے سامنے سب سے سنگین مسئلہ فکری ارتداد کا ہے، جس کا بڑا سبب مخلوط تعلیمی ادارے ہیں، جن کی زد میں لڑکوں کے ساتھ لڑکیاں بھی آتی ہیں، جبکہ اللہ تعالی نے عورتوں کو معمارِ انسانیت بنایا ہے۔ ارتداد چاہے مرد اختیار کرے یا عورت، بڑی بد قسمتی اور محرومی ہے، افسوس کا مقام ہے کہ ہم لوگوں کے اسلام میں داخلہ کا ذریعہ کیا بنتے خود اپنی نسل کے ایمان کو نہیں بچا سکے،عیسائی بننا، قادیانیت قبول کرنا، شکیلی حلقہ میں داخل ہونا، یہ سب پرانے واقعات ہیں،ہماری تربیت و نگرانی کی کمی، مخلوط معاشرہ، انگریزی نظامِ تعلیم، غیر مسلموں سے دوستانہ تعلقات، نیٹ اور فون کے غیر محتاط آزادانہ استعمال کی وجہ سے ہمارے لڑکے اور لڑکیاں اسلام سے برگشتہ ہوتی جا رہی ہیں، آئے دن ملک میں غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ مسلم لڑکیاں نکاح کر رہی ہیں، اس قبیح و بدترین فعل کے ذریعہ وہ دین و شریعت، اسلامی تعلیمات، اسلامی معاشرہ کو داغ دار کرنے، اسلامی تعلیمات کو بدنام کرنے اور نئے مسلمانوں کی راہ روکنے کی بدترین سازش کی مجرم بن رہی ہیں۔
اسلام صرف مذہب نہیں بلکہ ایک ضابطہ حیات بھی ہے جو انسانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ہر شعبہ پر محیط ہے، اس ضابطہ حیات کی تصدیق کرنے کے بعد اس کی تردید کرنا بغاوت ہے، دنیا کی تمام حکومتیں اور ممالک اپنے شہری کو ملکی قوانین و ضوابط کا مذاق اڑانے یا انکار کرنے کی اجازت نہیں دیتیں، تو پھر اسلام مسلمانوں کو مرتد ہونے کی اجازت کیسے دے سکتا ہے، تمام مہذب ملکوں اور حکومتوں میں باغی کی سزا موت ہے، اور اسلام کا باغی وہ مرتد شخص ہے، جو اسلام سے پھر جاۓ، اسی لۓ مرتد کی سزا قتل ہے، لیکن اسلام نے باغی کے معاملہ میں رعایت کی ہے، دوسرے مذاہب باغیوں کی کوئ رعایت نہیں کرتے گرفتار ہونے کے بعد جرم ثابت ہونے پر اس کو سزاۓ موت سنا دیتے ہیں، پھر وہ معافی مانگے، توبہ کرے، بغاوت سے پھر جانے کا عزم مصمم کرے، تو بھی اس کو معاف نہیں کیا جاۓ گا، اس کے بر خلاف اسلام میں باغی کو تین دن کی مہلت دی جاتی ہے، اس کو قید کرکے اس کو توبہ کرنے اور معافی مانگنے کی تلقین کی جاتی ہے، اگر وہ توبہ کرلے تو اس کو سزاۓ موت سے چھٹکارا دیا جاتا ہے، مگر افسوس ہے کہ اسلام میں اتنی آسانیاں ہونے کے باوجود پھر بھی اسلام میں مرتد کی سزا پر اعتراض کیا جاتا ہے، حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب پاکستانیؒ لکھتے ہیں: بعض اوقات ارتداد کو مسلمانوں کے خلاف ایک ہتیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، چنانچہ مدینہ منورہ میں یہودیوں نے آپ صلی اللہ کی پھیلی ہوئ دعوت کو روکنے کیلۓ یہی حربہ اختیار کیا تھا، چند پڑھے لکھے لوگوں نے بظاہر اسلام قبول کرکے مسلمانوں کا حلیہ اختیار کرلیا، پھر کچھ عرصہ بعد دینِ اسلام سے پھر کر اسلام کی اہانت کرنے لگے اس منصوبہ کا مقصد یہ تھا کہ جب لوگ دیکھیں گیں کہ تعلیم یافتہ لوگ بھی دین اسلام سے منحرف ہوگے ہیں تو اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تیزی سے پھیلتی ہوئ دعوت رک جاۓ گی اور نو مسلم بھی شک و شبہ میں پڑ جائیں گے۔
اب رہا مسئلہ یہ کہ مسلم عورت کا مشرک مرد سے نکاح کرنا جائز ہے یا نہیں، کسی بھی غیر مسلم سے شادی کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ اسلام کی سر بلندی کے خلاف ہے چنانچہ رشتۂ نکاح میں ایمان و اسلام کی بڑی اہمیت ہے، مسلم اور مسلمہ کا نکاح کسی مشرکہ اور مشرک سے شرعاً ناجائز اور حرام ہے، اور یہ حکم منصوص ہے، اس لۓ اس کے حرام و ناجائز ہونے میں کوج کلام نہیں، مشرکہ عورت، حسن و جمال، سیرت و صورت، ہر چیز میں جتنی بھی عمدہ ہو اور مسلم لڑکی اس کی خوبصورتی کے سامنے ہیچ ہو پھر بھی مشرکہ عورت اس عورت کے مقابلہ میں کم ہے، کیونکہ اللہ کے نزدیک مسلم عورت کا مقام و مرتبہ بلند ہے،
اب آییے اس ارتداد کے اسباب پر روشنی ڈالتے ہیں۔

گھر میں دینی ماحول کا نہ ہونا

لڑکیوں کے بگاڑ کا ایک اہم سبب گھر میں خود اسلام اور اسلامی تعلیمات کا نہ پایا جانا ہے، ہمارے مسلم معاشرہ میں ایک کڑوا سچ یہ ہے کہ جتنی زیادہ مادیت پرستی لوگوں میں بڑھتی جاتی ہے لوگ دین بے زار ہوتے جاتے ہیں، پھر فحاشیت اور برائ کا سیلاب گھر پر اس طرح اپنا غلبہ اور تسلط قائم کرلیتا ہے کہ باپ بیٹی اور ماں کے ساتھ مل کر حیاء باختہ فلمیں دیکھنے میں ذرا بھی شرم محسوس نہیں کرتے، حالانکہ آپ ﷺ نے الحياء شعبة من الايمان فرماکر حیاء کو ایمان کا ایک اہم شعبہ قرار دیا ہے، آج کل مسلم لڑکوں اور لڑکیوں میں حیاء کا نام و نشان ہی نہیں، گویا کہ وہ یوں سمجھ رہے ہیں کہ اسلام میں حیاء ہے ہی نہیں، ایک اور ارشاد آپﷺ کا یہ ہے کہ اللہ جب کسی بندے کی ہلاکت کا فیصلہ فرماتا ہے تو اسے حیاء سے محروم کردیتا ہے، جب کوئ حیاء سے محروم ہوجاتا ہے، تو نفرت اس کا مقدر بن جاتی ہے، اور نفرت میں مبتلا ہونے کے بعد امانت و دیانت کی صفت بھی اس سے چھن جاتی ہے، اور خائن آدمی اللہ کی رحمت کا حقدار نہیں رہتا، اور جوشخص اللہ کی رحمت سے دھتکار دیا جائے، تو وہ بدترین لعنت میں مبتلا ہو جاتا ہے، اور اس لعنت و ملامت کی کیفیت میں اس بد قسمت کے دل سے اسلام اور ایمان بھی رخصت ہو جاتا ہے، مختصر یہ کہ
حیاء نہیں ہے زمانے کی آنکھ میں باقی
خدا کرے کہ جوانی تیری رہے بے داغ

لائحئہ عمل اور تدابیر:-
ارتداد کی بڑھتی ہوئی لہر کو روکنے کے لئے احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا ضروری ہے۔
۱۔ اسلامی ماحول : اسلامی نظام کے مطابق مسلمان بچیوں کو پردے کا پابند بنایا جائے ان میں حیاء داری، عفت و عصمت کی حفاظت کا جذبہ اور عقیدۂ توحید و رسالت کی عظمت پیدا کی جائے، روزانہ اپنے گھروں میں آدھا گھنٹہ ہی سہی دینی تعلیم دی جائے، اہل اللہ کے بیانات سننے اور نماز پڑھنے کی تلقین کی جائے۔
۲۔ حتی الامکان اپنی اولادوں کو مخلوط تعلیم سے بچائے، اعلی تعلیم کے نام پر بچیوں کو آزادانہ گھر سے باہر بھیجنے کی غلطی نہ کریں، اس تعلیم سے کیا حاصل جس میں لڑکی کی عزت و عصمت داؤ پر لگ جائے اس سے تو جہالت بہتر ہے!
۳۔ منظم نگرانی کریں: جو لڑکیاں اسکولوں اور کالیجوں میں پڑھ رہی ہیں، ان کی تعلیم و تربیت، اور ذہن سازی کی بھر پور کوشش کی جاۓ۔
٤. ٹیوشن کلاس کے نام پر اجنبی لڑکوں سے اختلاط کا موقعہ نہ دیا جاۓ، کسی ٹیچر یا ساتھی طالب علم کے گھر پر کسی تعلیمی ضرورت کے نام پر بھی جانے کی اجازت نہ دی جاۓ،
۵.موبائل اور بائک خرید کر نہ دی جاۓ، یہ دونوں چیزیں بے حیائی کے دروازے کھولنے والے اور عفت و عصمت کی تباہی کے دہانے تک پہنچانےوالی ہیں۔
٦۔ نیٹ کے غلط استعمال سے بچائیں! اگر بچیاں کسی تعلیمی ضرورت سے استعمال کررہی ہیں تو ان کی بھر پور نگرانی کی جاۓ۔
٧. غیر مسلم لڑکیوں کی دوستی سے بھی روکا جاۓ، کہ آئندہ یہ دوستی بھی اسی فتنہ کا دروازہ بن سکتی ہے۔
۸۔ موبائل ریچارج یا زیراکس کیلۓ غیر مسلموں کی دکان پر جانے کی اجازت نہ دی جاۓ ۔
۹۔ جلد شادی کریں: تعلیم یقینا ضروری ہے، اسلام نفع بخش علوم کی تحصیل کا حامی ہے، تحصیلِ علم میں مرد اور عورت یکساں ہیں، لیکن اسلام تحصیلِ علم کے نام سے غیرت و حمیت کو داؤ پر لگانے اور اپنی عزت کو داغدار کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دیتا۔
۱۰۔ سب سے اہم کام ؛ جو بچیاں خراب کی جاچکی ہیں، ان کی ذہن سازی کی جاۓ، اور جو بچیاں خراب کرکے چھوڑی جاچکی ہیں، ان کے ساتھ ہمدردی کا سلوک ہو، اسے محبت کے ساتھ اپنایا جاۓ، پچھلے گناہ پر توبہ کراکے کسی مسلمان سے شادی کرادی جاۓ،

اس لئے پوری سنجیدگی کے ساتھ مسلمان تعلیمی اداروں ، سماجی اور مذہبی تنظیموں ، علماء و مشائخ ، مذہبی و سیاسی قائدین ، اُردو اخبارات و رسائل اور دینی تحریکوں اور جماعتوں کو اس مسئلہ پر غور کرنے ، مہم چلانے اور فکر و شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے ، ورنہ یہ بیماری بڑھتی ہی جائے گی اور جب بیماریاں ایک حد سے تجاوز کرجاتی ہیں تو ان کا علاج ممکن نہیں رہتا افسوس کہ اگر ہم نے اس سلسلے میں غفلت برتی تو پھر وہ دن دور نہیں کہ ہمارا گھر بھی اس سیلاب کی زد میں آجائے گا

اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے