محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
قائد احرار حضرت مولانا حبیب الرحمن ثانی لدھیانوی ؒ کا ۲؍ صفر ۱۴۴۳ھ مطابق ۱۰؍ ستمبر ۲۰۲۱ء کوساڑھے بارہ بجے شب لدھیانہ (پنجاب) کے ایک اسپتال میں انتقال ہو گیا، پس ماندگان میں دو لڑکے مولانا محمد عثمان رحمانی اور مجاہد طارق ، ایک لڑکی نغمہ حبیب ، اہلیہ اور دو بھائی عبید الرحمن اور عتیق الرحمن کو چھوڑا، جنازہ کی نماز ان کے جانشیں مولانا محمد عثمان رحمانی نے جمعہ کی صبح ساڑھے آٹھ بجے پڑھائی اور فیلڈ گنج چوک جامع مسجد کے قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔
مولانا حبیب الرحمن ثانی لدھیانوی بن مولانا مفتی محمد احمد رحمانی بن رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن اول لدھیانوی (ولادت ۱۸۹۲ وفات ۱۹۵۶) بن مولانا محمد زکریا کی ولادت ۸؍ مارچ ۱۹۵۸ء کو شفاعت منزل نزد سی ایم سی اسپتال لدھیانہ میں ہوئی ، تعلیم وتربیت کے مراحل لدھیانہ میں اپنے والد ماجد مفتی محمد احمد صاحب رحمانی، مولانا عبد اللہ صاحب لدھیانوی رحمہما اللہ سے طے کرنے کے بعد دہلی کا سفر کیا اور حضرت مولانا وحید الزماں قاسمی کیرانوی رحمۃ اللہ سے عربی زبان وادب کی تعلیم حاصل کی۔ ۱۹۸۰ء میں اکابر علماء کی موجودگی میں شاہی امام پنجاب کے منصب پر فائز ہوئے، اس موقع سے ان کے والد مولانا مفتی محمداحمد رحمانی لدھیانوی ؒ نے فرمایا کہ ’’آج میں نے اپنا مشن مضبوط ہاتھوں میں دے دیا ہے، انشاء اللہ میرا بیٹا حبیب الرحمن ثانی ثابت ہوگا‘‘ وہ اس منصب پر فائز ہونے والے نسلا بعد نسل اپنے خاندان کے چھٹے فرد تھے۔
مولانا حبیب الرحمن ثانی کی شخصیت جہد مسلسل سے عبارت تھی، انہوں نے اپنے دادا رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن اول کے کام کو انتہائی جرأت وبیباکی کے ساتھ جاری رکھا، پنجاب میں بہت ساری مساجد پر آزادی کے بعد غیروں نے قبضہ کر رکھاتھا، انہوں نے بڑی حکمت کے ساتھ بغیر جنگ وجدال کے ان مساجد کو آزاد کراکر ان میں نماز قائم کرائی ، ان کی محنت سے لدھیانہ کے جیل میں بھی مسجد کی تعمیر ہو سکی۔ وہ ایک جری اور بے باک قائد تھے، ان کی گفتگو اور تقریر میں اعتدال وتوازن ہو اکرتا تھا، لیکن اس اعتدال کے ڈانڈے کو انہوں نے کبھی بھی حکمت ومصلحت کے نام پر مداہنت تک نہیں پہونچنے دیا، وہ ارادہ کے پکے اور آزمائشوں کے موقع سے مستقل مزاجی اور استقامت کے پہاڑ تھے، ایثار وقربانی سے ان کی زندگی عبارت تھی ۔
انہوں نے تحریک تحفظ ختم نبوت کے ذریعہ قادیانیوں کے خلاف جو تحریک چلائی اس کی وجہ سے پنجاب میں ارتداد کی لہرکو روکا جا سکا، وہ اپنے ساتھ ہر وقت تلوار رکھاکرتے تھے، تقریر وغیرہ کے موقع سے تو وہ شمشیر بکف پیٹھا کرتے تھے، ان کا شمار ملک کے قد آور رہنما اور با حوصلہ عالم دین میں ہوا کرتا تھا، وہ مجلس احرار اسلام کے قومی صدر، پنجاب کے شاہی امام اور سیکڑوں دینی تنظیم اور اداروں کے سر پرست تھے، اور ان کی ذات سے ان اداروں اور تنظیموں کو قوت ملتی تھی، کہنا چاہیے کہ وہ پنجاب کے مسلمانوں کے لیے خصوصی طور پر ایک ڈھال تھے، وہ حکومت کے ہر غلط فیصلے کے خلاف آواز بلند کرتے تھے، ان کی حق گوئی کی وجہ سے حکومتیں بھی ان سے خائف رہتیں، اور ان کا احترام کرتی تھیں۔
مولانا مرحوم کی ایک حیثیت پیر طریقت تھی، ان کے مریدین کی تعداد ہزاروں میں تھی، جن کی وہ سلوک وتصوف کی لائن سے تربیت کرتے تھے، وہ ایک خوش وضع اور خوش پوشاک اور نستعلیق انسان تھے، ان سے ملکر آدمی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا تھا۔انہوں نے دعوت اسلامی کے لائن سے بھی بڑی خدمات انجام دیں، ایک موقع سے انہوں نے کاشی رام اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ بے انت سنگھ کو بھی اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تھی، قادیانیوں اور شر پسندوں کی طرف سے ان پر کئی بار قاتلانہ حملہ ہوا، لیکن اللہ نے بچالیا، ان کے ملکی اور بیرونی دعوتی اسفار بھی ہوا کرتے تھے، ایک بار وہ چھٹے امیر شریعت مولانا سید نظام الدین ؒ کے دور میں امارت شرعیہ بھی تشریف لائے تھے اور اسی آن بان شان سے آئے تھے جو ان کا طرۂ امتیاز تھا، شمشیر بکف کسی عالم کو پہلی بار میںنے امارت شرعیہ میں دیکھا ، اس موقع سے میٹنگ روم میں مجلسی گفتگو بھی انہوں نے فرمائی تھی، ان کی گفتگو میں ملک کے موجود حالات سے نمٹنے کے لیے ایک عزم اور ایک حوصلہ تھا، قائدین سے وہ صاف صاف بات کہنے کے عادی تھے، جب سی اے اے ، ان آر سی پر دیو بند میں عورتوں کے احتجاج کو ختم کرنے کا کچھ بڑے علماء نے مشورہ دیا تو انہوں نے فرمایا تھا کہ ایسے بزدل علماء کو اہم منصب پر رہنے کا حق نہیں ہے ، اس لیے انہیں استعفیٰ دینا چاہیے، وہ دین وسیاست کو ساتھ لے کر چلنے کے قائل تھے اور موجودہ بگاڑ کا سبب دین وسیاست میں دوری کو قرار دیتے تھے، وہ اقبال کی اس فکر کو پسند کرتے تھے کہ
جد اہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
مولانا مرحوم نے پوری زندگی ایک مجاہد کی طرح گزاری اور اپنے خلف میں مولانا عثمان رحمانی کو جانشیں بنا کر گیے ، جو اپنے والد اور پر دادا کی طرح جری ہیں، مختلف ملی مسائل پر آواز اٹھانے کی پاداش میں قید وبند کی صعوبتیں جھیل چکے ہیں، بجا طور پر توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے خاندانی روایات کو آگے بڑھائیں گے ۔
اتنے با فیض عالم دین کا جدا ہوجانا بڑا ملی سانحہ ہے، ہم ان کے وارثان سے تعزیت کے ساتھ مولانا کے لیے مغفرت اور ترقی درجات کی دعا کرتے ہیں۔ رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ