ازقلم: طاہر ندوی
مشرقی سنگھ بھوم جھارکھنڈ
امتحان چاہے مکتب کا ہو یا کسی مدرسے کا ، اسکول کا ہو یا کسی کالج اور یونیورسٹی کا ؛ کلیجہ منہ کو آ جاتا ہے ، راتوں کی نیند اڑ جاتی ہے ، ہر وقت بس یہی فکر ستاتی ہے کہ امتحان کا کیا بنے گا ؟ کیسے کامیاب ہوں گے ؟ کیسے تیاری کریں اور کون کون سے سوالات آنے والے ہیں ؟ پتا نہیں اگر پرچہ مشکل سوالوں سے بھرا ملا تو کیا کریں گے کیسے جوابات لکھ سکیں گے ؟ ایسے کئی سوالات ذہن پر سوار ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے دماغ بوجھل ہو جاتا ہے اور یاد کی ہوئی باتیں بھی دماغ سے غائب ہو جاتی ہیں ۔
دنیا کے امتحانات خواہ چھوٹے ہوں یا بڑے انسان گھبراہٹ کا شکار ہو جاتا ہے اور اس کی مشکلیں بڑھ جاتی ہیں سوچنے کی بات ہے کہ جب دنیا کے امتحانات کا یہ عالم ہے جہاں سوالات کتابوں سے ہونا ہے ، اور وہ بھی ان کتابوں سے جو نصاب میں تھیں پھر ممتحن ایک انسان ہوتا ہے ، کامیابی اور ناکامی دونوں ہی وقتی اور عارضی ہوتے ہیں تو پھر آخرت کا امتحان جہاں سوالات زندگی کے بارے ہونا ہے ، جوانی کے بارے ہونا ہے ، مال کے بارے ہونا ہے کہ کیسے کمایا اور کہاں خرچ کیا اور علم کے بارے ہونا ہے پھر ممتحن بھی کوئی انسان نہیں ہوگا بلکہ کائنات کا رب ہوگا ، جس کے سامنے رات اور دن برابر ہے ، وہ دن کے اجالے میں جس طرح دیکھ لیتا ہے اسی طرح رات کی تاریکی میں بھی دیکھ لیتا ہے ، کوئی اس سے بھاگ نہیں سکتا ، کوئی چھپ نہیں سکتا ، کوئی نقل نہیں مار سکتا ، کوئی دھوکہ نہیں دے سکتا ۔
دنیا کے امتحانات انسانوں کے حوالے ہیں ، جن سے راہ فرار اختیار کیا جا سکتا ہے ، چھپا جا سکتا ہے ، نقل کیا سکتا ہے ، دھوکہ دیا جا سکتا ہے لیکن رب کائنات کے یہاں ان سب کی اجازت نہیں ہوگی اور نہ ہی ہمت ہوگی کہ رب کائنات کو دھوکہ دے کر آخرت کے امتحان پاس کرلیا جائے ۔
یہ دنیا ہے یہ امتحان کی جگہ ہے جگہ جگہ امتحانات ہیں ، آزمائشیں ہیں آپ کو ہر آزمائش اور امتحان کے تیار رہنا چاہئے ، ہر وقت اور ہر لمحہ آخرت کے امتحان کے لئے تیار رہنا چاہئے پتا نہیں کب اور کیسے امتحان کے لئے بلاوا آ جائے اور سوالات کے انبار آپ کے سامنے کھڑا کر دیا جائے جسے دیکھ کر آپ کف افسوس ملتے رہ جائیں کہ کاش دنیا میں ہی ان سوالات کے جوابات کی تیاری کرلیتا تو آج خسارہ سے ، اللہ کے ہاں شرمندگی سے اور ذلت و رسوائی سے بچ جاتا اللہ ہمیں آخرت کی تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین