میرے تصورات ہیں تحریریں عشق کی

ازقلم: محمد دلشاد قاسمی

میرا ماننا ہے کہ محبت بار بار ہوتی ہے‘ لیکن عشق ایک بار ہوتا ہے۔ محبت پہلی نظر میں ہو جاتی ہے‘ لیکن اس کو عشق کا مقام دینے کے لیے محبت کو کئی منزلیں طے کرنا پڑتی ہیں۔ کئی دشوار راستوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ محبت اندھی ہوتی ہے‘ لیکن عشق کھلی آنکھوں سے کیا جا تا ہے۔
محبت میں فیصلے بدلتے رہتے ہیں۔ حالات بدلتے ہیں۔ جذبات بدلتے ہیں۔ انتخاب بدل جاتے ہیں۔ انسان بدل جاتے ہیں‘ لیکن عشق؟ عشق آخری فیصلہ ہوتا ہے! عشق میں کچھ نہیں بدلتا
عشق ایک بہت ممتاز جذبہ ہے۔
عشق ایک مقدس جذبہ ہے
عشق ایک مقدس رشتہ ہے
عشق ایک مقدس احساس ہے
عشق ایک مقدس درد ہے
عشق ایک مقدس مقصد ہے

محبت انسان کو بدل دیتی ہے‘ لیکن عشق انسان کو ادھورا کر کے بھی مکمل کر دیتا ہے۔
عشق میں کبھی الوادع کا لمحہ نہیں آتا۔ عشق کا آخری مقام عاشق کی آخری سانس ہے۔

عشق کے لغوی معنی تو پھٹ جانے کے ہیں مگر متصوفانہ اصطلاح میں عشق کی تعریف دراصل تیقن کے انتہائی مقام کی صورت میں کی جاتی ہے، عشق کے مفہوم کو واضح کرنے کے لیے تصوف کا علاقہ مستعار لیا گیا ہے ایک صوفی عشق کو کچھ یوں بیان کرتا ہے،
العشق نار تحرق ما سوى المحبوب
"عشق اُس آگ کا نام ہے جو عاشقوں کے دل اور سینے میں جلتی رہتی ہے اور خدا کے سوا جو کچھ ہے اُسے جلا کر خاکستر کر دیتی ہے” بالکل یہی کیفیت ایک انسان کی دوسرے انسان کے لیے بھی بیدار ہو سکتی ہے جسے صوفیانہ اصطلاح میں عشق مجازی کہتے ہیں ۔
دراصل عشق آپ کو پاک کرنے کے لئے ہوتا ہے تاکہ آپ دنیا کے اٹریکشن اور کشش وغیرہ سے بے نیاز ہوجائے عشق کرنے کے بعد آدمی دنیا کی تمام آرزوئے ، خواہش ، اور غم سے بے نیاز ہوجاتا ہے ۔ عشق میں آپ کی ساری خواہشات آپ کے محبوب میں ڈھل جاتی ہیں ۔
عشق کر کے آدمی رحم دل ہو جاتا ہے ایک رحم والی صفت اس کے اندر آ جاتی ہے دوسروں کے دکھ درد کو سمجھنے کی صلاحیت اس کے اندر پیدا ہوجاتی ہے دوسروں کے لئے اپنی خوشیاں قربان کرنے کا حوصلہ اور جذبہ اس کے اندر پیدا ہو جاتا ہے ۔
اور عشق سارے کشف سکھا دیتا ہے اندر کے سارے دروازے کھڑکیاں کھول دیتا ہے ۔

در راز شریعت کھولتی ہے

زبانی عشق جب کچھ بولتی ہے

لیکن یہ عشق کرنا اتنا آسان تھوڑی ہے کسی ایک کو دل میں بسا کر صرف اسی سے محبت کرنا صرف اسی کو چاہنا ، چاہے اس سے اچھے کتنے ہی راستے میں آئے لیکن اسی کو چاہتے رہنا اسی سے محبت کرتے رہنا اور کبھی اس کی یاد سے غافل نہ رہنا اور ہمیشہ یہ کیفیت رہنا یہ دو چار دن یا دو چار سال کی بات نہیں بلکہ ہمیشہ کے لئے ایک ہی کو دل میں بسا لینا یہ آسان کام نہیں ہے اصل میں مستقل مزاجی کا دوسرا نام عشق ہےاس لیے عشق مستقل مزاج آدمی ہی کر سکتا ہے یہ ہر کس و نا کس کے بس کی بات نہیں ۔ عشق پاک اور بے غرض محبت کو کہتے ہیں اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔
من عشق وكتم وعف ثم مات فهو شهيد .

عرفِ عام میں عشق کی دو ہی صورتیں ہیں عشق مجازی اور عشق حقیقی، عشقِ مجازی دراصل ایک انسان کے مکمل وجود یا کسی ایک حصے سے شدید پیار کرنا اور اپنی طلب کو وجودِ محبوب کے دائرے تک محدود رکھنا، دوسرے لفظوں میں کسی ایک بنی نوع انسان کے لیے اپنے آپ کو اس کی خواہشات کے مطابق ڈھال لینا یا وقف کر دینا عشق مجازی ہے جبکہ عشقِ حقیقی میں محبوب کے وجود سے ماوراء ہو کر اُس کی ذات کا طالب بن جانا، اس صورت میں محبوب کا وجود موجود ہونا لازم نہیں کیونکہ یہاں وجود کی حیثیت ہی باقی نہیں رہتی ۔
عشق حقیقی اور عشق مجازی میں بنیادی فرق یہ ہے کہ عشق مجازی میں محبوب تبدیل ہونے کا امکان ہے ۔
لیکن عشق حقیقی میں یہ امکان نہیں ہوتا اس لیے عشق حقیقی زیادہ مضبوط اور پائیدار ہوتا ہے اور اصل عشق بھی وہی ہے ۔
دوسرا بڑا فرق یہ ہے کہ عشق حقیقی میں بت بڑا ہوتا چلا جاتا ہے جیسے جیسے آپ اللہ کے قریب جاتے ہیں ۔لیکن عشق مجازی میں ایسا نہیں ہے بلکہ جوں جوں آپ اس کے قریب جاتے ہیں وہ کم لگنے لگتا ہے ۔
ایک فرق یہ ہے کہ عشق مجازی میں کوئی محنت درکار نہیں ہوتی کوئی بھی ایک پہلو جو ہم چاہتے ہیں یا جسے ہم پسند کرتے ہیں مثلاً خوبصورت ہونا اچھا بولنے والا ہونا اداؤں والا ہونا نرم دل ہونا وغیرہ یعنی اپنی پسند کے پہلوؤں میں سے کوئی پہلو اگر ہم کسی میں دیکھتے ہیں تو اس سے محبت ہو جاتی ہے اور یہ محبت بتدریج عشق میں تبدیل ہو جاتی ہے دوسری وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے ہر انسان کے اندر کچھ نہ کچھ صفات رکھی ہے کوئی رحم دل ہے کوئی غصے والا ہے کوئی سخی ہے کوئی کنجوس ہے وغیرہ وغیرہ اب ایک انسان کے اندر جو صفات ہے اگر وہ صفت وہ کسی دوسرے شخص میں دیکھتا ہے تو اس کی طرف مائل ہو جاتا ہے وہ اپنا عکس اس شخص کے اندر دیکھنے لگتا ہے اور پھر یہ میلان عشق میں تبدیل ہو جاتا ہے اس میں کوئی مجاہدہ نہیں کرنا پڑتا لیکن عشق حقیقی میں محنت درکار ہوتی ہے ہمیں دنیا کی خواہشات سے کٹنا پڑتا ہے مجاہدہ کرنا پڑتا ہے ۔

ایک بات میں بہت زیادہ افراط و تفریط پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ بہت سے حضرات کہتے ہیں کہ عشق مجازی اگر کسی کو ہو جائے تو اسے ضرور بضرور عشق حقیقی نصیب ہو جاتا ہے کچھ کہتے ہیں کہ عشق حقیقی کا راستہ عشق مجازی سے ہو کر گزرتا ہے ۔
دیکھئے حقیقت یہ ہے کہ عشق مجازی کے ذریعے سے بھی کچھ لوگوں کو عشق حقیقی تک کا سفر نصیب ہوا ہے زمانہ ماضی میں لیکن یہ کوئی کوئی اصول نہیں ہے ایسا ہو بھی سکتا ہے نہیں بھی ۔
عشق حقیقی کے حوالے سے یہاں میں ایک نکتہ بیان کر دوں ۔
ثم سواه ونفخ فيه من روحه فقعوا له ساجدين
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کے اندر اپنی روح پھونکی ہے تو ایک روح ، روح سے جدا ہوگئی اس وجہ سے روح کی تڑپ ہے کہ وہ روح سے ملنا چاہتی ہے اور روح سے روح کے مل جانے کا نام ہی عشق ہے انسان کو جو بیماری لاحق ہوتی ہے اس کے بارے میں اطباء حضرات تو یہ کہتے ہیں کہ انسان کے اندر سودا صفرا بلغم اور خون ہیں ان میں سے جب کسی کی مقدار متعینہ مقدار سے زیادہ ہو جاتی ہے تو وہ بیمار ہو جاتا ہے ، لیکن صوفیاء حضرات کا یہ کہنا ہے کہ انسان کے جسم کے اندر روح اللہ تبارک و تعالیٰ کی روح سے جدا ہو کر آئی ہے اب یہ روح جسم سے باہر نکلنا چاہتی ہے لیکن جسم اس کو جکڑ کر رکھتا ہے اسی کشمکش تناؤ اور کشیدگی کی وجہ سے انسان بیمار پڑتا ہے ۔ میں یہ کہہ رہا تھا کہ انسان کی روح اللہ تبارک وتعالی کی روح سے ملنا چاہتی ہے اور اسی ملن کا نام ہے عشق ہے اب سوال یہ ہے کہ یہ روح اللہ تعالی سے ملنی چاہئے تھی یہ صنف نازک سے کیوں مل جا رہی ہے ؟؟؟ تو جواب یہ ہے چونکہ ہم دنیا میں رہتے ہیں یہیں سے ہمارے رشتے اور تعلقات استوار ہوتے ہیں یہی کے لوگوں سے ہمارے معاملات ہوتے ہیں پھر اللہ تبارک و تعالی نے جنس مخالف میں طبعی میلان بھی رکھا ہے لہذا ان تمام وجوہات کی بنا پر ہماری روح راستہ بھٹک جاتی ہے ٹریک سے سے الگ ہو جاتی ہے اور عشق مجازی میں ملوث ہو جاتی ہے لیکن اصل عشق ، عشق حقیقی یعنی اللہ سے عشق ہے یہی وجہ ہے کہ اگر عاشق کو صحیح ماحول اور صحیح تربیت مل جائے تو یہ عشق مجازی عشق حقیقی میں تبدیل ہو جاتا ہے ۔

عشق کی عظمت اس کی گہرائی میں ہے۔

لیکن جوں جوں زمانہ ترقی کے مدارج طے کر رہا ہے…. مادیت کی طرف رجحان بڑھ رہا ہے۔ مادہ پرست علم اور عقل کو اولیت دیتے ہیں اور عشق کو ثانوی…. جس کے نتیجے میں علم محدود نامکمل اور خام رہتا ہے۔ دوسری جانب عشق کی عدم موجودگی نے موجودہ دنیا کو جذبوں کی جدت سے دور کردیا ہے۔ خود فریبی، نفسانفسی اور بُعد انہی عوامل کی پیداوار ہیں۔
کیونکہ مادہ پرستی جب پھیل جاتی ہے تو انسانوں پہ سے انسانوں کا بھروسہ ختم ہو جاتا ہے صرف پیسوں پر بھروسہ ہوتا ہے آج ہمارا معاشرہ مادہ پرستی کی طرف جارہا ہے اسی لئے انسانوں سے بھروسہ ختم ہو رہا ہے

عقل منزل تک پہنچنے کے لیے سوچتی اور تدبیریں کرتی ہے لیکن عشق سب مرحلوں سے بےچوں چرا گزر جاتا ہے۔ عشق کا جذبہ سوز و زیاں نہیں دیکھتا۔ جو شے سوچ و بچار اور فائدے نقصان پر آمادہ کرتی ہے وہ عقل ہے لیکن عشق صلے سے بھی بیگانہ ہوتا ہے، عشق وہ کام کر دکھاتا ہے جو عقل کبھی نہ کرسکی ۔

بےخطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی

علامہ اقبال کے نزدیک بھی عقل کی کمزوری یہ ہے کہ اس میں جرات کی کمی ہے۔ اگر عشق علم کی پشت پناہی اور رہبری نہ کرے تو علم یا عقل منزل مقصود سے دور رہے۔ یہ عشق ہی ہے جو سوز و زیاں سے بےنیاز ہوتا ہے اور عشق کی حرارت سے بےخطر انسان آگ میں کود جاتا ہے۔ یہ عشق ہی ہے جو آگ کو گلزار اور سمندر کو سبزہ زار بنا دیتا ہے۔ جو انہونی کو ہونی کردیتا ہے اور دکھ کو سکھ میں بدل دیتا ہے۔ عشق کبریائی اور غرور کے بتوں کو پاش پاش کردیتا ہے۔ عشق ہی ہے جس کی رسائی آسمانوں تک ہے۔ لیکن عقل اسباب علل کے بھول بھولیوں میں الجھ کر اصل حقیقت سے دور رہتی ہے۔
عشق سے اشیاء کا مکمل علم اور صحیح بصیرت حاصل ہوتی ہے۔

گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور
چراغ راہ ہے منزل نہیں ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے