ازقلم: مدثر احمد شیموگہ
موبائل ۔۔9986437327
جشن اردو کا سلسلہ چل رہا تھا، مولوی حسن اور پروفیسر نوشاد دونوں کو جشن اردو کے کم و بیش دو درجن جلسوں میں خطاب کرنا تھا۔۔۔
ہم پہلے مولوی حسن کو مدعو کرنے انکے گھر پہنچے۔ مہمان خانے میں انکی بیٹی جو ابھی ابھی اسکول سے آئی تھی ہمارے سامنے چائے کا طبق لے کر پہنچی ۔۔ ہم نے اسکرٹ میں ملبوس بچی کو دیکھ کر مولوی حسن کو سوالیہ نشان سے دیکھا تو مولوی حسن مصنوعی مسکراہٹ میں کہنے لگے ۔۔۔
کیا کریں جناب ۔۔۔گھر والی مانتی ہی نہیں اسلیے کانوینٹ میں پڑھائی ہورہی ہے۔
ہمارے دل میں مولوی صاحب کے سوال پر یہ خیال آیا کہ جب مولوی حسن کی بات انکی بیوی نہیں مان رہی ہے تو قوم کیا مانے گی؟..
وہاں سے ہم پروفیسر نوشاد کے گھر پہنچے، گھر پر تھا نوشاد کاٹیج۔۔ ایک قدم آگے رکھا۔۔ ویلکم ٹو ہوم۔۔ نوشاد صاحب خود دروازہ کھولتے ہوئے کہا۔۔ اِٹ اِز سرپرائز ۔۔۔۔
جب ہم نے انہیں جشن اردو کے لئے مدعو کیا تو کہنے لگے۔ شٹ۔۔ دس از بلڈی منتھ فار می۔ ٹو مچ بیزی ان پروگرامس۔ واٹ دا ہیل از دس جشن اردو۔۔۔اینی ہیو۔۔۔آئی ول جوائن اٹ شارپ ٹائم۔۔(شٹ۔۔ یہ کمینہ مہینہ ہے میرے لئے ۔۔بہت مصروف ہوں پروگرامس میں ۔۔ کیا بکواس ہے یہ جشن اردو۔۔۔ کچھ بھی ہو، میں بروقت جلسے میں شرکت کرونگا۔۔۔
دونوں سے ملاقات کے بعد ہمارے محلے کی وہ گیتانامی عورت آنکھوں کے سامنے نظر آئی جو اردو اسکول میں خادمہ تھی اور اس نے اپنے بچے کو نمک کا حق ادا کرنے کے لئے اردو ہی پڑھارہی تھی اور اسکا بیٹا راجو اردو میں مہارت حاصل کرچکا تھا ۔۔۔ تینوں کردار سامنے تھے، سوال تھا کون ہے اردو کا سچا عاشق ۔۔۔