تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں

از:۔مدثراحمد۔شیموگہ۔کرناٹک۔9986437327


مسلمانوں کی سیاست،شجاعت،حکومت،حکمت اور طاقت کا اندازہ اگر جاننا چاہتے ہیں تو علامہ اقبال کی اُس شاعری کے ذریعے جاناجاسکتاہے جس میں علامہ اقبال نے ہر مرحلے میں مسلمانوں کو اُن کا مقام بتایاہے۔جو مسلمان عرب سے لیکر آفریقہ تک،مصر سے لیکر یونان ویوروپ تک اپنی حکومتوں کی سرحدیں پھیلائے ہوئے تھے،اُن مسلمانوں کی نسلیں آج مسجدوں،خانقاہوں،مزاروں اور معمولی سیاسی جماعتوں کے اقلیتی شعبوں کے رہنمائوں کے طو رپر سکڑ گئے ہیں،اگران کی قیادت اور طاقت کاجائزہ لیناہوتو مساجد کے اماموں اورموذن پر کئے جانے والے ظلم کی حدوں کو دیکھیں،لیڈروں کی شناخت دیکھنا چاہتے ہیں تو چائے کی دکانوں ، چوراہوں اور راشن کی دکانوں پر دیکھیں کہ کس طرح سے وہ اپنے سیاسی فنون کا مظاہرہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔جن مسجدوں اور مدرسوں کے یہ لیڈران بنے ہوئے ہیں،دراصل وہ مقامات خادمین کے ہیں لیکن انہوں نے اسے سیاست کامرکز بنا رکھاہے۔جس جگہ پر سیاست کےجوہر دکھانے کی ضرورت ہے،وہاں پر یہ دور دور تک دکھائی نہیں دیتے،وہی جہاں پر تقویٰ وپرہیز گاری کامظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے وہاں پر یہ لوگ قیادت کرتے ہوئے نظرآتے ہیں۔آج اُمت کے مسائل کو حل کرنے والے قائدین اور اُمت کی قیادت کرنے والے افرادکی ضرورت ہے،لیکن مسلمانوں کے یہاں عمل میں لائی جانے والی تنظیمیں وادارے شروعات میں تو حق اور عدل کی بات کرتے ہیں،سماجی انصاف کے تقاضوں کی دلیلیں دیتےہیں،مگر وقت کےبدلنے کےساتھ ہی ان کا مقصد غریبوں میں راشن تقسیم کرنے اور بچوں میں پینسل،کتابیں اور قلم بانٹنے تک محدود ہوجاتاہے۔جس قوم کو آج سماجی انصاف کی ضرورت ہے اُس قوم کو انصاف دلانے کے بجائے اُس قوم کی دلالی کرتے ہوئے نظرآرہے ہیں۔ اپنے آپ کوقائد بنانے یا قوم کے نوجوانوں کو قیادت کی ترغیب دینے اور انہیں ابھارنے کے بجائے قوم کے نوجوانوں اور مضبوط ارادوں کے قائدین کے حوصلے پست کرنے کی دوڑ میں لگے ہوئے۔مولاناابوالکلام آزاد کا قول ہے کہ دُنیا مزید دس ہزار سال بھی رہے،تب بھی بھارت کے مسلمانوں کو اس ملک کا شہری ماننے کیلئے ہندو تیارنہیں ہونگے اور اس ملک کے مسلمان اپنے لیڈرپر بھروسہ نہیں کرینگے۔آج یہی ہورہاہے،مسلمانوں کی قیادت کا عدم لیکر جو لوگ آگے آتے ہیں اُس پر مسلک مسلک،مکتب فکر اور خاندانی شجرے کی بنیاد پر تفریق کی جارہی ہے۔یہ نہیں دیکھاجارہاہے کہ اُس میں99 خوبیوں اورایک خامی ہے،چونکہ وہ مسلمان ہوتاہے اسی لئے ایک خامی کو لیکر اُسے پوری پوری طرح سے بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔مسلمانوں میں جو لوگ بہروپیوںہیں اور قیادت کے نام پر دوسروں کے تلوے چاٹتےہیں اُن پر یقین کیاجاتاہے۔ہم یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ بھارت کے مسلمان علیحدہ ملک بنانے کیلئے پیش رفت کریں،بلکہ یہ کہہ رہے ہیں اس ملک کے آئین کا لحاظ رکھتے ہوئے ملک کی سیاسی،سماجی اور ملی سرگرمیوں میں مسلمان پیش پیش رہیں۔آخر ایک مسلمان دوسرے مسلمان پر کیوں بھروسہ نہیں کرتا؟۔اگر کوئی لیڈ ربننا چاہتاہے تو اُسے لیڈر بننے کیلئے چھوڑدیاجائےیاپھر آپ میں اُس کی خواہش ہے تو اُس خواہش کے تحت کام کریں،یہ نہ دیکھیں کہ اُس میں کتنی خامیاں ہیں،بلکہ یہ بھی دیکھیں کہ اُس کے اندرکتنی خوبیاں بھی ہیں۔ہاں خوبیاں دیکھتے وقت قوم کی دلالی کرنےو الے اور اپنے مفادات کیلئے قوم کو دائو پر لگانے والوں کااعتبارنہ کریں ۔ مسجدوں ومدرسوں اور خانقاہوں کی سیاست سے باہر آئیں۔دیکھیں کہ دُنیا میں اور بھی راستے ہیں قیادت کیلئے اور اور بھی راہیں ہیں منزلیں پانے کیلئے۔کسی چیزکو محدود نہ کریں بلکہ حوصلوں کے ساتھ آگے بڑھتے رہیں،یہی حوصلے ملت کو کامیاب کرسکتے ہیں۔قوم کی قیادت کیلئےاب نہ صلاح الدین ایوبی آئینگے،نہ ہی محمد بن قاسم کا نزول ہوگا،بلکہ جو وسائل اس وقت مسلمانوں کے پاس موجودہیں اُن وسائل کا استعمال کریں اورانہیں میں سے لیڈر تیار کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے