تحریر: عابدہ ابوالجیش
کاغذ کی کشتی تھی پانی کا کنارہ تھا کھیلنے کی مستی تھی دل یہ آوارہ تھا جانے کہاں آگۓ سمجھداری کے اس دلدل میں وہ نادان بچپن کتنا پیارا تھا کل رات یوں ہی بیٹھے بیٹھے جب ماضی کےاوراق کو پلٹنے لگی تو ایکدم ایک ورق پر آکر نگاہیں ٹہر سی گٸیں اور چہرے پر دلفریب مسکراہٹ کا سبب بنی کیونکہ میں ماضی کے اس دور نایاب میں پہنچ گٸ جسے بچپن کہا جاتا ھے
بچپن ہاں وہ بچپن جسے دادا دادی کی زبانی کہانیاں سنا کرتے تھے بھاٸیوں بہنوں کا ریلا ہوتا کوٸ کندھے پہ چڑھا کوئی گھٹنے پہ لیٹا سب ہمہ تن گوش کہانی سن رہے ہوتے اور اوپر سے ہمارے معصومانہ سوالات کہ دادا یہ چاند ماماں ہمارے ساتھ کیوں چلتے ہیں اور ریل کے سفر میں ریل آگے اور درخت پیچھے کیوں رہ جاتے ہیں اور ہمارے معصومانہ سوالات پہ دادا جان کا مسکرانہ کتنے اچھے تھے دن میرے بچپن کے دن حسین اور دلکش یادوں کا مجموعہ ہے میرا بچپن کہ جب رو کر اپنی ہر ضد منوانا کس قدر مشکل نہ تھا بھروسہ کرنا نہایت آسان خواہشات کے چکنا چور ہونے کا جواز ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کاغذ کی کشتی بناتے بارش کے پانی میں بہاتے ماچس کے ڈبے سے ریل گاڑی بناتے حسین یادوں سے بھرا بچپن وقت نے پھر کروٹ لی ہے اب بچے بوڑھے لگتے ہیں تتلی بن کے اڑنے والے سوچ میں ڈوبے رہتے ہیں مگر افسوس اب رشتے ہیں وقت نہیں رہا دوست احباب تو موجود ہیں لیکن محفلیں نہیں رہی آج کاغذ تو موجود ہے لیکن ناٶ بنانے والے نہ رہے میں ماضی کے اوراق کو پلٹتی جاتی ہوں ماضی کے اوراق کے پلٹنے کے ساتھ۔۔ ساتھ مجھ میرا مجھے میرا بچپن دھند لا نظر آتا ھے کیونکہ اب بچپن نہیں رہا یادیں رہ گٸ ھے تو میرے دل نے یہ کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔
یہ دولت بھی لے لو یہ شہرت بھی لے لو
بھلے چھین لو مجھ سے سے میری جوانی
مگر مجھ کو لوٹا دو وہ بچپن کا ساون
وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی