ایک فوٹو کاپی کی دکان پر ایک لڑکا (22 سال)، ایک لڑکی (19 سال)، اور ایک شخص (35 سال) داخل ہوئے۔ وہ سب بہت جلدی میں تھے اور کچھ آدھار کارڈ اور میٹرک سرٹیفکیٹ کی فوٹو کاپی کروانا چاہتے تھے۔ لڑکی پریشان اور اداس لگ رہی تھی۔ دکان کے مالک، جو تقریباً 45 سال کے تھے، نے پوچھا، "کتنی کاپیاں کرنی ہیں اور کس لیے؟” لڑکی نے اداسی سے کہا، "دس دس کر دیجیے، پتا نہیں پھر کرنے کا موقع ملے یا نہیں، پتا نہیں زندہ بھی چھوڑیں گے یا نہیں۔” ساتھ آئے شخص نے اسے تسلی دی، "ارے، تم لوگ فکر نہ کرو، میں ہوں نا تمہارے ساتھ، کچھ نہیں ہوگا۔”
دکان دار نے لڑکی سے محبت سے پوچھا، "بیٹا، تم کچھ اداس لگ رہی ہو، کوئی پریشانی ہو تو مجھے بتا سکتی ہو۔ میں تمہارے ابو جیسا ہوں۔” یہ سنتے ہی لڑکی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور بولی، "میں اس لڑکے سے محبت کرتی ہوں اور شادی کرنا چاہتی ہوں، لیکن میرے گھر والے راضی نہیں ہیں۔ ہم بھاگ کر آئے ہیں کیونکہ یہ دوسرے مذہب کا ہے۔ ساتھ آئے شخص اس کے چچا ہیں، ان کا کہنا ہے کہ شادی کے بعد سب مان جائیں گے۔”
دکان دار نے لڑکی کو تسلی دی اور پوچھا، "اگر تمہیں 100 روپے اور 1 روپے میں سے چننا ہو، تو کیا چنو گی؟” لڑکی نے کہا، "انکل جی، 100 ہی چنوں گی۔” دکان دار نے سمجھاتے ہوئے کہا، "یہی بات رشتوں پر بھی لاگو ہوتی ہے، تم ایک رشتے کے لیے سو رشتے چھوڑ آئی ہو۔” یہ سن کر لڑکی کو جھٹکا لگا اور اس نے لڑکے سے کہا، "مجھے اپنا فون دو، مجھے ابو سے بات کرنی ہے۔” لڑکے نے منع کر دیا، لیکن لڑکی نے دکان دار سے فون لے کر اپنے والد کو کال کی اور روتے ہوئے کہا، "ابو، آپ مجھے لینے آ سکتے ہیں؟” دکان دار نے والد سے بات کر کے انہیں دکان کا پتہ دے دیا اور کہا، "بیٹی محفوظ ہے۔”
جیسے ہی لڑکے نے یہ سنا، وہ بھاگنے لگا۔ لڑکی نے چلّا کر کہا، "بھاگ کیوں رہے ہو، تم تو مجھ سے بہت محبت کرتے تھے؟” لڑکے نے کوئی جواب نہ دیا اور سامان لے کر بھاگنے لگا۔ لڑکی نے کہا، "پکڑو انہیں! میرے بیگ میں زیورات ہیں جو میں گھر سے لائی تھی۔” آس پاس کے لوگوں نے دونوں کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کر دیا۔ شام تک لڑکی کے والد آئے اور اسے گھر لے گئے۔ لڑکی نے دکان دار سے کہا، "انکل، آپ کا بہت بہت شکریہ۔ میں اب سو رشتے لے کر جا رہی ہوں۔”
یہ لڑکی تو بچ گئی، مگر نہ جانے کتنی لڑکیاں ہر روز ایک رشتے کے لیے سو رشتے چھوڑ دیتی ہیں اور بعد میں پچھتاتی ہیں۔