حقوق انسانی کا عالمی منشور اوراسلام کے عطا کردہ بنیادی حقوق (قسط:2)

10دسمبر 1948ء کا متحدہ منشور ایک حسین دستاویز ہے!!

تحریر: محمد عبدالحفیظ اسلامی
سینئر کالم نگارو آزاد صحافی۔ فون نمبر:9849099228

گزشتہ مضمون میں اقوام متحدہ کی کچھ تاریخ پیش کی گئی تھی اور خاص طور پر 10 ڈسمبر 1948 ء میں اقوام متحدہ کی جانب سے پیش کردہ انسانی حقوق کے سلسلہ میں 30 دفعات پر مشتمل منشور کی تفصیل بھی تحریر کردی گئی، لیکن آج کے عالمی حالات پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوگا کہ یہ عالمی منشور کہاں تک کامیاب ہوا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ اقوام متحدہ نے 1948ء کے بعد بھی اس پر بہت کچھ کام کیا ہے۔ جناب محمد صلاح الدین مرحوم اس سلسلہ میں یوں رقمطراز ہوئے: ’’اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق نے اس سلسلہ میں مزید کچھ کام کیا ہے۔ 1959ء میں اس نے بچوں کے حقوق سے متعلق اور 1963ء میں نسلی امتیاز کے انسداد کیلئے ایک اعلان جاری کیا۔ جنرل اسمبلی نے 1948ء میں نسل کشی کی روک تھام کیلئے، 1951ء میں مہاجرین اور جلاوطن لوگوں کے تحفظ کیلئے، 1952ء میں خواتین کے سیاسی حقوق کیلئے، 1957ء میں شادی شد ہ عورتوں کی قومیت کے تعین کے لئے، 1951ء میں غلامی کے مکمل انسداد اور خاتمہ کیلئے اور 1965ء میں جنوبی افریقہ میں نسلی امتیاز کی مذمت کیلئے مختلف عہدنامے اور قراردادیں منظور کیں۔
اقوام متحدہ کے خصوصی اداروں مثلاً بین الاقوامی ادارہ محنت (ILO) یونیسکو، بین الاقوامی ادارہ مہاجرین (IRO) اور ہائی کمشنر برائے مہاجرین نے بھی اپنے اپنے دائرہ عمل میں انسانی حقوق کے تعین و تحفظ کیلئے قابل ذکر کام کیا ہے۔
لیکن حقوق انسانی کے عالمی منشور اور اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی اداروں کی ان شاندار کوششوں کا ماحصل کیا ہے؟ کیا منشور نے فی الواقع انسان کو جبر و استبداد اور آمریت و فسطائیت کے چنگل سے نجات دلا کر آزادی کی فضا میں سانس لینے اور اپنے حقوق سے متمتع ہونے کا موقع فراہم کردیا ہے؟ اس منشور کی حقیقت اور اقوام متحدہ کی بے بسی کی کیفیت کا حال خود مغربی مفکرین اور بین الاقوامی ماہرین قانون کی زبانی سنئے۔ GUIWS EZEJIOFOR اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:
’’کمیشن برائے انسانی حقوق نے 1947ء میں منشور کے نفاذ سے متعلق ایک رپورٹ منظور کی جس میں سابقہ انداز فکر کو یکسر الٹ دیا گیا۔ اس میں یہ عام اصول طے کردیاگیا کہ ’’کمیشن تسلیم کرتا ہے کہ انسانی حقوق سے متعلق شکایات کے معاملہ میںوہ کسی قسم کی کاروائی کا اختیار نہیں رکھتا۔‘‘
گویا منشور کے اعلان سے ایک سال قبل ہی یہ طے ہوگیا کہ اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوگی۔ کوئی ملک چاہے تو اس منشور پر از خود رضاکارانہ طور پر عمل درآمد کرسکتا ہے اور چاہے تو اٹھاکر ردی کی ٹوکری میں بھی پھینک سکتا ہے۔
HANS KEILSON ہنز کلیسن کا یہ تبصرہ ملاحظہ ہو:
’’خالص قانونی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو منشور کی دفعات کسی بھی رکن ملک پر انہیں تسلیم کرنے اور منشورکے مسودہ یا اس کے ابتدائیہ میںصراحت کردہ انسانی حقوق اور آزادیوں کو تحفظ دینے کی پابندی عائد نہیں کرتیں۔ منشور کی زبان میںکسی ایسی تعبیر کی گنجائش نہیں جس سے یہ مفہوم نکلتا ہو کہ رکن ممالک اپنے شہریوں کو انسانی حقوق اورآزادیاں دینے کے قانونی طور پر پابند ہیں۔
منشور نے ریاستوں کی چیرہ دستی کے ازالہ کیلئے ایک فرد کو کیا کچھ عطا کیا ہے اس کے بارے میں KARLMANNHEIM کارل منہائم لکھتے ہیں:
’’منشور نے کسی فرد کو یہ قانونی حق نہیں دیا کہ وہ منشور میں دئیے گئے حقوق اور آزادیوں میں سے کسی ایک کے سلب ہوجانے کی صورت میں بین الاقوامی عدالت یا اقوام متحدہ کے سب سے بڑے ادارہ انصاف، بین الاقوامی عدالت انصاف سے اپیل کرسکے۔ اس عدالت کے قانون کی دفعہ 34 میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ عدالت کے سامنے صرف ریاستیں ہی فریق کے طور پر پیش ہوسکتی ہیں۔
منشور میں جن معاشی اور سماجی حقوق کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ ان کی اصل حقیقت واضح کرتے ہوئے DR RAPHAEL ڈاکٹر رفائل کہتے ہیں:

’’یہ نام نہاد معاشی اورسماجی حقوق کوئی بین الاقوامی فرض عائد نہیں کرتے۔ یہ ایسے حقوق ہیں جن کا تعلق کچھ چیزیں دینے سے ہے مثلاً معقول آمدنی، اسکول اور سماجی خدمات وغیرہ۔ لیکن کس سے کہا گیا ہے کہ وہ یہ چیزیں مہیا کرے؟ یہ فرض آخر کس سے متعلق ہے؟ اقوام متحدہ کے منشور انسانی حقوق کے مصنّفین جب یہ کہتے ہیں کہ ’’ہر فرد کو سماجی تحفظ کا حق حاصل ہوگا‘‘ تو کیا ان کا مطلب یہ ہے کہ ہر فرد کو ایک عالمگیر نظام تحفظ کو کچھ عطیہ دینا چاہیے جس سے ضرورت پڑنے پر وہ فائدہ اٹھا سکے گا۔ اگر واقعی ان کی مراد یہی ہے تو ان عہدناموں کے مسودے میں جن کا مقصد منشور کا نفاذ ہے، اس قسم کے نظام کی تشکیل کیلئے کوئی دفعہ کیوں نہیں ہے؟ اور اگر ایسا نظام وجود نہیں رکھتا تو پھر کیسا فرض اور کہاں کاحق؟ لوگوں پر ایسا فرض عائد کرنا جس کی ادائیگی کا امکان ہی نہ ہو، سراسر حماقت ہے تاہم یہ اتنی ظالمانہ نہیں جتنی یہ حماقت کہ لوگوں کو ایسے حقوق عطا کردئیے جائیں جن سے وہ کوئی استفادہ ہی نہ کرسکیں۔‘‘
ان حقوق کے بارے میں AK. BROHIاے کے بروہی کہتے ہیں:
’’معاشی اورسماجی حقوق کے عہدنامہ میں دئیے گئے حقوق درحقیقت اس اصطلاح کے تسلیم شدہ مفہوم کی رو سے حقوق ہی نہیں ہیں۔ یہ تو سماجی اور معاشی پالیسیوں کے محض اصول ہیں اور اسی سے اتفاقاً یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ کمیشن کو ایک کی بجائے دو علیحدہ عہدنامے Govenants کیوں مرتب کرنے پڑے۔‘‘
ان کے اشارہ دنیا کے دو مختلف نظریاتی کیمپوں کی جانب ہے جو نہ صرف متضاد پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں بلکہ حقوق کا قطعی مختلف تصور رکھتے ہیں۔
منشور کی حقیقت اور اقوام متحدہ کی بے بسی کی یہ تصویر دیکھ لینے کے بعد مغرب ہی کے ایک مفکر سے مستقبل کے امکانات کا یہ مایوس کن تجزیہ بھی سن لیجئے۔GAIUSEZE JIOFOR لکھتے ہیں:
’’انہی وجوہ کی بناء پر یہ دعویٰ نہیں کیا جاسکتا کہ اقوام متحدہ کے تحت انسانی حقوق کے قانونی تحفظ کا کوئی روشن مستقبل ہے۔ یہ ادارہ ایسی ریاستوں کے گروپوں پر مشتمل ہے جو جمہوریت اور ریاست و فرد کے باہمی تعلق کا قطعی مختلف تصور رکھتے ہیں۔ مغربی ممالک کے نزدیک بعض حقوق اور آزادیاں مہذب معاشرہ کیلئے بنیادی سمجھی جاتی ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ حقیقی جمہوریت کی بنیادیں انہی حقوق سے استوار ہوتی ہیں۔ دوسری طرف کمیونسٹ ممالک کا خیال ہے کہ کوئی حق اور آزادی لابنیادی نہیں۔ تمام حقوق کا ماخذ ریاست ہے اور اسی کو یہ حق ہے کہ بحیثیت مجموعی پورے معاشرے کے مفاد میں وہ ان حقوق اور آزادیوں کی حدود کا تعین کرے۔ ان سے الگ وہ ترقی پذیر ریاستیں ہیں جن کا مقصد تیز رفتار معاشی وسماجی ترقی کا حصول ہے اور جو سمجھتی ہیں کہ شہری اور سیاسی حقوق اور آزادیوں کی ضمانت مطلوبہ معاشی وسماجی مقاصد کے حصول میں ایک رکاوٹ ہے۔ ان اختلافات کے ہوتے ہوئے یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ اقوام متحدہ انسانی حقوق کے میدان میں بہتر نتائج نہ دکھا سکی اور نہ اس سے مستقبل میں ایسی توقع رکھنا حقیقت پسندانہ طرز فکر ہوگا۔‘‘
منشور انسانی حقوق کے مطالعہ اور اس پر کئے گئے تبصروں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ بین الاقوامی سطح پر انسان کی اجتماعی کوششیں بھی اس کیلئے پروقار اور آبرومندانہ زندگی کی کوئی ضمانت مہیا نہیں کرسکیں۔ وہ اپنے اپنے ملک میں حکومتوں کی قہرمانی کے سامنے جتنا بے بس وبے اختیار پہلے تھا اتنا ہی آج بھی ہے بلکہ حکومتوں کے دائرہ کار اور اس کے اختیارات میں مسلسل وسعت و اضافے نے بنیادی حقوق اور شہری آزادیوں کو بالکل بے معنی بنادیا ہے۔ منشور انسانی حقوق کی حیثیت ایک خوشنما دستاویز سے زیادہ کچھ نہیں، اس میںحقوق کی ایک فہرست تو مرتب کردی گئی ہے لیکن ان میں سے کوئی ایک حق بھی اپنے پیچھے قوت نافذہ نہیں رکھتا۔ یہ نہ ریاستوں پر کوئی قانونی پابندی عائد کرکے انہیں بنیادی حقوق سلب کرلینے سے باز رکھنے کا کوئی اہتمام کرتا ہے اور نہ کسی فرد کے غصب شدہ حقوق کی بازیابی کیلئے کسی قانونی چارہ جوئی کاکوئی نظام مہیاکرتا۔ اس طرح یہ منشور تحفظ انسانی حقوق کے معاملہ میں بالکل ناکارہ اور ناقابل اعتماد دستاویز ہے۔ اس کا زیادہ سے زیادہ فائدہ بس اتنا ہے کہ اس نے انسانی حقوق کا ایک معیار قائم کردیا ہے اورعالمی انسانی برادری کو اپنے حقوق کے تحفظ کا ارتقائی احساس و شعور بخشا ہے۔ معاشرہ میں فرد کی اہمیت پر زور دیا ہے اور اس کی مدد سے نوآزاد ممالک اپنے آئین وضع کرتے وقت بنیادی حقوق کے رسمی باب کو سہولت کے ساتھ مرتب کرلیتے ہیں۔ اس منشور کی حیثیت سراسر اخلاقی ہے۔ قانونی نقطہ نظر سے اس کا کوئی وزن ومقام نہیں۔ بنیادی حقوق کے محافظ کی حیثیت سے اس منشور کی قوت و اہمیت کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ صرف سیاسی قیدیوں کے معاملات سے متعلق بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل (Amnesty International) کی شائع شدہ رپورٹ برائے سال 1975-76ء کے مطابق اقوام متحدہ کے 142 رکن ممالک میں سے 113 ملکوں میں بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی گئیں اور طاقت کے بے جا استعمال، بلا جواز گرفتاریوں، سیاسی قیدوبند، جبروتشدد اور سزائے موت کے واقعات اور پریس پر پابندی، عدلیہ کے اختیارات میں کمی، آمرانہ قوانین کے نفاذ اور بنیادی حقوق منسوخ ومعطل کئے جانے کے اقدامات میں عالمگیر سطح پر تشویشناک اضافہ ہوا ہے۔ (بحوالہ کتاب: بنیادی حقوق)
منشور انسانی حقوق کے بارے میں مغربی مفکرین و ماہرین سیاسیات کے تحریروں و تبصروں اور بے باکانہ اظہار خیال سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ انسانی حقوق کا عالمی منشور صرف ایک حسین دستاویز کے سوا کوئی اہ میت نہیں رکھتا اور ایمنسٹی انٹرنیشنل تنظیم جس کا اوپر ذکر ہوچکا ہے، اس کی رپورٹ میں یہ بات صاف طور پر بتلائی گئی کہ 1975ء تا 1976 ء کے اقوام متحدہ کے کل 142 رکن ممالک میں سے 113 ملکوں نے انسانی بنیادی حقوق کی سنگین طور پر خلاف ورزیاں کی ہیں۔ یہ رپورٹ آج سے تقریباً 50 برس پہلے شائع ہوئی تھی، لیکن بحیثیت مجموعی اگر دیکھا جائے تو اس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ اگرچہ کہ اس ادارہ کی جانب سے کچھ خدمت خلق کے ظاہر ی ونمائشی کام بھی ہوتے رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے قیام کے وقت اس کے چھ بنیادی ادارے بھی وجود میں آئے، یعنی (1) جنرل اسمبلی (2) اکنامک اینڈ سوشل کونسل (3) سیکورٹی کونسل (4) انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس (5) ٹرسٹی شپ کونسل (6) سیکریٹریٹ۔
اقوام متحدہ کے تمام 193 رکن ممالک جنرل اسمبلی کے ارکان ہیں۔ اس میں فیصلے سادہ اکثریت یا بعض اوقات اہم معاملات میں دو تہائی اکثریت سے لیے جاتے ہیں۔ اس کا اجلاس ہر برس ستمبر میں ہوتا ہے۔
سلامتی کونسل کے حال کا ایک منظر
سلامتی کونسل کے 15 ارکان ہیں، ان میں پانچ مستقل ارکان ہیں (چین، امریکہ، روس، برطانیہ اور فرانس) باقی ارکان کو ایک علاقائی ترتیب کے مطابق جنرل اسمبلی منتخب کرتی ہے۔ سیکورٹی کونسل میں فیصلے اکثریتی ووٹ کی بنیاد پر ہوتے ہیں، تاہم مستقل ارکان میں سے اگر کوئی ایک بھی مخالفت کردے تو اسے ویٹو سمجھا جاتا ہے، چاہے باقی تمام ارکان بھی اس فیصلے کے حامی ہوں۔
اقوام متحدہ میں انگریزی، چینی، فرانسیسی، روسی، ہسپانوی اور عربی کو سرکاری زبانوں کا درجہ حاصل ہے۔ اقوام متحدہ میں شامل مذکورہ پانچ ممالک کسی بھی فیصلہ وقرارداد کے اہم موقع پر حق و انصاف سے اوپر اٹھ کر صرف اور صرف اپنے اپنے مفادات کو اولین ترجیح دیتے ہیں۔ جہاں کہیں اپنے مفاد پر روک لگنے معاملہ ہوتاہے تب یہ لوگ اپنا ویٹو پاور استعمال کرتے ہوئے ساری دنیا کے فائدے سے دستبردار ہوجاتے ہیں۔ یعنی نوع انسانی کو مطلب پرستی کی چھری سے دبح کردیا جاتا ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ شاعر نے بہت خوب کہا ہے:
شاید کبھی خلوص کو منزل نہ مل سکے گی
وابستہ ہے مفاد ہر ایک دوستی کے ساتھ
اوریہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دنیا میں جتنے بھی کمزور ملک ہیں ان سرمایہ دار ملکوں کی چکنی اور خوشنما باتوں میں بہت جلد آجاتے ہیں اور ہر وقت ان کے آگے ہاتھ باندھ کر کھڑے رہتے ہیں اور غفلت وبے خبری کی پٹی اپنی آنکھوںپر باندھ کر اس کے استحصال کا شکار ہوجاتے ہیں۔ شاعر کہتا ہے:
ریشم سے نرم لہجے کے پیچھے مفاد تھا
اس تاجری کو ہم نے شرافت سمجھ لیا
اقوام متحدہ کے قیام سے لے کر 2019ء تک کی رپورٹ یہ بتاتی ہے کہ 1946ء سے 2019ء تک 250 سے زائد بار مستقل رکن ممالک کی جانب سے ویٹو کیا جاچکا ہے۔ روس نے اب تک سب سے زیادہ قرار دادوں کو ویٹو کیا ہے جن کی تعداد 110 بتائی جاتی ہے، خاص طور پر اس نے وسطی ایشیاء، مشرقی یورپ، شام اور یوکرائن کے حوالے سے ویٹوپاور کا استعمال کیا ہے۔
دوسرے نمبر پر امریکہ آتا ہے۔ اس نے اب تک 100 کے لگ بھگ قراردادوں کو اپنے ویٹو پاور کے ذریعہ مسترد کردیا ہے، ان میں اکثریت اسرائیل کے خلاف اور فلسطین کے مفاد میں تھیں۔ اسی طرح برطانیہ اب تک 32 اور فرانس16 اور چین نے 13 قراردادوں کو اپنی طاقت استعمال کرتے ہوئے ناکام بناچکے ہیں۔
24اکتوبر2021ء بی بی سی لندن اردو کی ایک رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کی جانب سے کمزورں کیلئے کچھ راحت رسانی کے کام بھی ہوئے ہیں اور ناکامی بھی ہوئی ہے۔ اقوام متحدہ کا مرکزی مشن بین الاقوامی امن وسلامتی قائم رکھنا ہے، جس کے حصول کیلئے تنازعات کو پیدا ہونے سے روکنا اور ہونے کی صورت میں محدود کرنے کے اقدامات لینا، اور کسی تنازعے میں فریقین کو امن قائم کرنے اور امن کو برقرار رکھنے کیلئے حالات کو بہتر بنانے میں مدد فراہم کرنے کے اقدامات لینا ہوتا ہے۔
اقوم متحدہ کے اعداد وشمار کے مطابق وہ اب تک ایسے 172 معاہدے طے کراچکا ہے جن کے ذریعے چار کروڑ مہاجرین کی دیگر ممالک میں پر امن آباد کاری میں مدد دی گئی۔ ایک ارب سے زائد لوگوں کو پینے کا صاف پانی اور 80 ممالک کے کروڑوں لوگوں کو خوراک فراہم کی ہے۔ اس نے مختلف ممالک کو ان کے انتخابات میں مدد دی ہے، بچوں کو ویکسین فراہم کی ہے، لاکھوں خواتین کو زچگی کی صحت میں مدد دی ہے۔
اس کے علاوہ اقوام متحدہ کی ایک اپنی رپورٹ کے مطابق، یونیورسل ڈیکلیریشن آف ہیومن رائٹس نے (یوڈی ایچ آر) نے 80 سے زیادہ بین الاقوامی انسانی حقوق کے معاہدوں اور اعلانات، علاقائی انسانی حقوق کے کنوینشنوں، داخلی انسانی حقوق کے بلوں اور آئینی دفعات کی منظوری میں بنیادی یا رہنما کردار ادا کیا جو کہ مل کر انسانی حقوق کے فروغ اور تحفظ کیلئے ایک جامع قانونی طور پر پابند عالمی اور علاقائی سطح پر ایک نظام تشکیل دیتے ہیں۔
اقوام متحدہ اوراس کی ایجنسیوں نے ایچ آئی وی (ایڈز، آئیبولا، ہیضہ، انفلوئنزا، پیلا بخار، میننجائٹس اور کووڈ19) جیسی بیماریوں کے خلاف عالمی کوششوں کو مربوط کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے اور دنیا کے بیشتر حصوں سے چیچک اور پولیو کے خاتمے میں مدد کی ہے، دس اقوام متحدہ کی ایجنسیوں اور اقوام متحدہ کے اہلکاروں کو امن کیلئے نوبل انعامات مل چکے ہیں۔ (اقتباس ختم)
(جاری)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے