سوریہ نمسکار اور شوشل میڈیا میں مسلم خواتین کے خلاف حیاسوز پوسٹ کے خلاف ممبئی کی ملی تنظیموں نے کیا شدید غم وغصے کا اظہار

حالات پر نظر ہے، ضرورت پڑی تو جلد ہی دستور وقانون کے مطابق آئندہ اقدامات کا اعلان کیا جائے گا

مرکزی حکومت کی طرف سے اسکولوں میں سوریہ نمسکار کا پروگرام شروع کرنے کا جوفرمان جاری ہوا ہے اس پر ممبئی کی ملی تنظیموں نے شدید غم وغصے کا اظہارکیا ہے ان کا کہنا ہےکہ سب جانتے ہیں کہ مسلمان سورج، چاند اور دیگر مظاہر قدرت کی پوجا نہیں کرتا بلکہ اُس مالک حقیقی کی عبادت کرتا ہے جس نے سورج اور چاند کو بنایا ہے، جس نے اس کائنات کی تخلیق کی ہے، جو سورج، چاند اور دیگر ستاروں کو اپنے محور پر چلا رہا ہے، جو بارشیں برساتا ہے، ہوائیں چلاتا ہے، زمین سے سبزہ اور اناج اگاتا ہے، جس کے علم واجازت کے بغیر اس کائنات میں ایک پتہ تک نہیں ہل سکتا ـ

ملی تنظیموں نے کہا کہ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے، یہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے اور مختلف تہذیب اور مختلف زبانیں بولنے والے صدیوں سے ایک ساتھ گزربسر کررہے ہیں، ہمارے ملک کا دستور بھی تمام باشندوں کو اپنے مذھب اور اپنے عقیدے پر چلنے کی مکمل آزادی دیتا ہے، ایسے میں حکومت کا کسی مخصوص طبقے کے مذہبی شعار کو سب کے لئے لازم قرار دینا ایک غیر قانونی اور غیر دستوری عمل ہے، اس کا مقصد سماج میں تفرقہ اور نفاق پیدا کرکے اپنے ڈگمگاتے ہوئے اقتدار کو مستحکم کرنے کی ناکام کوشش ہے ـ

حکومت کو سمجھنا چاہیئے کہ الیکشن آتے جاتے رہیں گے، حکومتیں بھی آتی جاتی رہتی ہیں مگر ہمارے ملک کی جو اصل شناخت ہے کہ یہاں تمام مذاہب کے لوگ آزادی کے ساتھ اپنے عقیدے پر عمل کرتے ہیں اسی آزادی کی وجہ سے ہی ہمارا ملک دنیا بھر میں جانا جاتا تھا، افسوس اقلیتوں کے خلاف فرقہ پرستوں کی سازشیں اور اعلی کرسیوں پر براجمان کچھ لوگوں کی اقتدار کی ہوس کی وجہ سے اس ملک کا استحکام خطرے میں پڑ رہا ہے، ملک کے اکثریت کے ذہن میں اقلیتوں کے خلاف مسستقل زہر بویا جارہاہے جس کی وجہ سے ساری دنیا میں ہماری سیکولر شناخت بھی متاثر ہورہی ہے ـ

چنانچہ شوشل میڈیا میں بھی مسلمانوں کے خلاف الگ الگ انداز میں نفرت کا پرچار کیا جارہا ہے، دھرم سنسد کے نام پر بھی اکثریت کو مشتعل کرکے مسلمانوں کا قتل عام کرنے کے لئے اُکسایا جارہا ہے، اسی نفرت کا نتیجہ ہے کہ حال کے دنوں شوشل میڈیا پر مسلم خواتین کو فروخت کرنے کے اشتہارات دئیے گئے، اُن خواتین میں بڑی عمر کی خصوصا وہ باعزت عورتیں بھی شامل ہیں جو سماج میں برپا ناانصافی کے خلاف آواز بلند کرتی ہیں ـ

ملی تنظیموں کے ذمہ داروں نے ملک کی اس صورت حال پر شدید تشویش کا اظہار کیا اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت سوریہ نمسکار جیسے شرکیہ پروگراموں کو لازم قرار دینے سے باز آئے، بلکہ آج کل کرونا کی وبا ایک بار پھر تیزی سے پھیل رہی ہے اُس پر توجہ مبذول کرے، ویسے بھی موجودہ مہاماری کے حالات میں ایک جگہ زیادہ تعداد میں لوگوں کا جمع ہونا بہت خطرناک ہوگا ـ

اسی طرح یہ بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ دھرم سنسد کے نام پر یا شوشل میڈیا کا سہارا لے کر مسلمانوں کے خلاف جو نفرتی پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے، مسلم خواتین کے خلاف جو حیاسوز اشتہارات آرہے ہیں ان کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے، مذہبی لباس میں غیر مذہبی باتیں کرنے والے نام نہاد دھرم گرووں کے خلاف بھی سخت کارروائی کی جائے۔

ملی تنظیموں کے ذمہ داروں نے مسلمانوں سے بھی اپیل کی ہے کسی سازش کا شکار نہ ہوں، بالکل اشتعال قبول نہ کریں، ذمہ داروں نے کہا کہ ہما ری حالات پر نظر ہے، ضرورت پڑنے پر آئندہ دستور وقانون کے مطابق اقدامات کا اعلان کیا جائے گا ـ اسکول میں جس دن سوریہ نمسکار کا پروگرام ہو اس دن اپنے بچوں کو اسکول نہ بھیجیں، ویسے بھی کرونا کی وجہ سے اسکولیں بند ہیں، بڑی کلاس کے بچوں کے لئے بھی آن لائن اسکول میں شامل ہونے کی سہولت ہے ـ اپنے گھروں میں، مساجد وغیرہ میں اللہ کے ذکر کی محفلیں منعقد کریں جس میں اللہ کی وحدانیت اور بڑائی کے بیان کے ساتھ اس خالق کائنات کی بارگاہ میں اپنی لغزشوں، کوتاہیوں اور گناہوں کے لئے استغفار کیا جائے، خاص طور پر کرونا کی موجودہ خطرناک صورت حال سے بچاو کے لئے بھی دعائیں کریں، اپنے ملک اور قوم کی فلاح وبہبود ترقی وسلامتی کے لئے دعاکریں کہ اللہ ہمیں اور ہمارے ملک کو نااہل حکمرانوں سے بچائے، یہاں امن وامان قائم رکھے، اور سبھی انسانیت دشمن طاقتوں سے ہم سب کی حفاظت فرمائے ـ

مذکورہ بیان دینے والوں میں مولانا محمود دریابادی، مولانا سید اطہر علی، مولانا انیس اشرفی، فرید شیخ، عبدالحسیب بھاٹکر، مولانا عبدالجلیل سلفی، مولانا فیاض باقر، ڈاکٹر سلیم خان، سلیم موٹر والا شامل ہیں ـ ملّی تنظیموں میں آل انڈیا علماء کونسل ،جماعت اسلامی ہند، جماعت اہل سنّت ، صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی ، ملّی کونسل، ممبئی امن کمیٹی، اسٹوڈنٹس اِسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا ،آل انڈیاخلافت کمیٹی،رضا فاؤنڈیشن،انجمن خادم حُسین ٹرسٹ،موومنٹ فار ہیومن ویلفیئر شامل ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے