نظم: دودھ کے دانت

خیال آرائی: ف۔س۔اعجاز

میں پہلی جنوری کو
گھر والوں کی فرمائش پہ
اپنے سامنے کے چار دانتوں سے
گرم و تازہ
نیو ئیر کے کیک کا
ٹکڑہ چبا کر
نگلنے کی سعی میں تھا
مِری بیچارگی پر خود
مِرے آنسو نکل آئے
تبھی پوتا مِرا
نزدیک آیا
اور ادائے خاص سے
ہنستا ہوا بولا
’’سنو دادا !
اِن دودھ کے دانتوں سے
آدھی رس ملائی توڑ کر کھانے کا
آدھی پھینکنے کا
توتلا کر بولنے کا حق ہمارا ہے
نجانے تین سو پینسٹھ دنوں کے سال کی تکلیف تم
کیسے چباؤ گے میرے دادا؟‘‘

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے