تحریر: قیام الدین قاسمی سیتامڑھی، استاذ یونیک ریسرچ سینٹر، پرسنالٹی ڈیولپر
7070552322 qiyam308@gmail.com
آئیےفرض کریں معاشرہ ایک انسان اوراسلام کےشعبے اس کے اعضائے بدن ہیں
جب تک اسلام کے اہم احکامات کو ہم ایک لڑی میں پرو کر معاشرے اور سماج کا اٹوٹ حصہ نہیں بنادیتے تب تک ہم اسلام کے کچھ جزئیات کو یا پھر اپنے میدانِ عمل کو ہی تبدیلی کی بنیاد سمجھ بیٹھیں گے اور تبدیلی کے ارادے و عمل کے باوجود خاطر خواہ تبدیلی نہیں لاپائیں گے
چلئے آج بطور تمثیل اس بات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اگر ہم معاشرے کو ایک انسان تصور کریں تو اسلام کے کون سے اجزاء اور شعبے معاشرے کے کون سے اعضاء بنیں گے:
1 معاشرے کا دل = ایمان:
ہم مسلمانوں کی ترقی کا اصول اللہ نے "وانتم الاعلون ان کنتم مؤمنین” کہ کر کچھ ایسا ہی طے کررکھا ہے کہ چاہے ہم مادی ترقی کرتے ہوئے مریخ تک کیوں نہ پہنچ جائیں اگر ایمان ہمارا پختہ نہیں ہے تو ہمیں اللہ کبھی عروج و عزت نہیں بخشیں گے
2 معاشرے کا دماغ = علم:
اللہ تعالٰی نے حضرت آدم علیہ السلام کو علم دے کر فرشتوں سے بہتر دکھایا، طالوت کو غربت کے باوجود بادشاہت عطا کرنے کی وجہ بسطۃً فی العلم بتایا، اور "ھل یستوی الذین یعلمون والذین لا یعلمون” اور انما یخشی اللہ من عبادہ العلماء کے ذریعے علم کو تفوق و برتری کا ذریعہ بنایا، اس سے علم کی اہمیت معلوم ہوتی ہے اور اسی وجہ سے اس امت کو سب سے پہلا درس "اقرا” کا دیا گیا، اور دماغ کی مانند اس اسلامی معاشرے کا پورا نظام چلانے کی ذمہ داری علماء کو دی گئی۔
اور دماغ غور و فکر اور تجزیہ اسی وقت کرتا ہے جب حواس خمسہ کے ذریعے اس کے اندر معلومات پہنچ رہی ہوتی ہیں لہٰذا تعلیمی نظام کی تجسیم و تمثیل حواس خمسہ کے ذریعے کی جاسکتی ہے، جس طرح انسان جو دیکھتا اور سنتا ہے ویسا ہی سوچتا ہے اسی طرح تعلیمی نظام میں وہ طاقت ہوتی ہے کہ معاشرے کے رخ کو جس طرف چاہے موڑ دے، اب جتنا کمزور یہ تعلیمی نظام ہوتا جائے گا اتنا ہی کمزور اس معاشرے کا دماغ ہوتا چلا جائے گا، اور جتنے اچھے طریقے سے وہ حواس خمسہ کو استعمال کرے گا اتنا ہی بہترین تعلیمی نظام کہلائے گا اور پھر اتنا ہی ذہین معاشرہ وجود میں آئے گا۔
3 معاشرے کا خون = مال:
کس بھی مادی چیز کی اہمیت کا اندازہ اس کے زرِ مبادلہ کے ذریعے کیا جاتا ہے، کوئی چیز مہنگی اسی لئے ہوتی ہے کہ اس کی قیمت، ویلیو، ڈیمانڈ اور اہمیت زیادہ ہوتی ہے اور مال کا زرِ مبادلہ اللہ نے "ان اللہ اشتری من المومنین انفسھم و اموالھم بان لھم الجنہ” کے ذریعے جنت کو قرار دیا، بس یہ ایک آیت مال کی اہمیت کو بتانے کے لیے کافی ہے، اسی طرح اللہ نے متعدد جگہوں پر اقامت صلوٰۃ کے ساتھ ایتاء زکوٰۃ کا بھی ذکر فرمایا ہے، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد سب سے پہلے مواخات کے ذریعے صحابہ کے معاشی مسائل کا سولوشن نکالا، انسان کے پیدا ہونے کے بعد سب سے پہلے جو حصار اس کو اپنے گھیرے میں لیتا ہے وہ ہے بھوک یعنی اس کے معاشی مسئلے کا حصار، و کاد الفقر ان یکون کفرا۔
اگر مادی وسائل نہ ہوں تو انسان کی فکریں دھری کی دھری رہ جائیں۔
4 معاشرے کی سانس اور پھیپھڑے = عبادات:
ایک چیز جو انسان سے کسی حالت میں جدا نہیں ہوسکتی وہ ہے سانس، مطلب آدمی نہ بولے نہ سوچے نہ کوئی کام کرے کچھ نہ کرے سوتا رہے تو بھی زندگی گزرسکتی ہے مگر کسی بھی صورت اس کو سانس سے مفر نہیں، بالکل یہی حیثیت معاشرے میں عبادات کی ہے، اسی وجہ سے اللہ نے "وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون” کہا، ہمیں اس سے دوباتیں سمجھ میں آتی ہیں ایک تو یہ کہ عبادت ہمارا مقصد زندگی ہے اب عبادت کے اصل معنی تو اللہ کی بندگی کے ہیں جس کا ظاہری مطلب یہ ہے کہ آدمی چوبیس گھنٹے اللہ کے در پر پڑا رہے مگر اللہ تعالیٰ نے اس کی تعیین حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے کروائی کہ کب کس وقت کیا کرنا عبادت ہے، اور دوسری چیز یہ بھی سمجھ میں آتی ہے کہ ایمان کی گہرائی کو جاننا یہ تو ہمارے اختیار میں نہیں البتہ اس کے مظاہر عبادات کو اللہ نے اس کا قائم مقام بنادیا ہے اب کوئی قلب کے ایمان پر پختہ ہونے کا کتنا بھی دعویٰ کرلے لیکن اگر وہ عبادت نہیں کرتا تو دنیا کی حد تک اس کا دعوائے ایمان جھوٹا اور کھوکھلا ہے، اور اسی وجہ سے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے من ترک الصلاۃ متعمدا فقد کفر جیسی سخت وعید سنائی ہے کہ جو شخص یا معاشرہ عبادت نہیں کرتا وہ کافر اور مردہ ہے۔
5 معاشرے کے گردشِ خون کی نسیں = خدمت خلق:
یہ دو قسم کی نسیں ہیں جو دل سے نکل کر بدن کے ہر حصے تک پھیلی ہوئی ہوتی ہیں اور دل کے پمپ کردہ تازہ آکسیجن والے خون کو پہنچاتی ہیں (artillery) یا پھر پہلے سے موجود خون کو واپس دل تک پہنچاتی ہے (veins)، یہ نسیں اگر نہ ہوں تو دل اپنا کام کرکے بھی بدن کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا، بالکل یہی صورت حال خدمت خلق کی ہے، کہ اگر ہمارے اندر خدمتِ امت کا جذبہ نہیں ہے تو ہم ایمان والے ہوکر بھی ایک صالح معاشرہ نہیں بن سکتے اور معاشرے کے لیے رحمت نہیں بن سکتے حالاں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو صرف ایمان والے نہیں بل کہ رحمۃ للعالمین بناکر بھیجے گئے تھے، اب قرآن کی اس آیت "و اما ماینفع الناس فیمکث فی الارض” حدیث قدسی "ان کنتم تریدون رحمتی فارحموا خلقی” اور حدیث "الخلق کلھم عیال اللہ و أحب خلقہ الیہ انفعھم لعیالہ” "من قضی لاخیہ حاجه کان کمن عبد اللہ عمرہ” اور الدین النصیحۃ کو پڑھئے اور پھر اندازہ لگائیے کہ کتنی اہمیت ہے اسلام میں خدمتِ خلق کی۔
6 معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی = سیاست و حکومت:
سیاست کے بجائے اسے قیامِ امن و انصاف بھی کہ سکتے ہیں، اس کی اہمیت ریڑھ کی ہڈی کی مانند اس وجہ کر ہے کہ اسلام کے حدود اور اس جیسے کئی احکام کا نفاذ حکومت کے بغیر ممکن نہیں، یہ حد درجہ اہم اس لیے بھی ہے کہ اللہ نے ہمیں و اعدوا لھم ما استطعتم من قوۃ کا فارمولا اور فلسفہ دیا ہے، اور اس وقت تعلیمی ادارے، ذرائع ابلاغ، ترقیاتی کام، عدالتی نظام، داخلی و خارجی سلامتی، نظم و نسق غرض زندگی کے اکثر گوشوں کا اختیار و قوت حکومتوں کے ہاتھ میں ہے جو سیاست کے ذریعے حاصل کی جاتی ہے، تو اگر سیاست ہمارے معاشرے کے ایجنڈے میں شامل نہیں ہے تو گویا یہ معاشرہ زندہ تو ہے مگر کھڑا نہیں ہے اپاہج بنا ہوا ہے۔
7 معاشرے کے جسم کی ہڈیاں = جہاد:
جہاد پورے جسم کی ہڈیاں ہے بشمول سر کی کھوپڑی اور پسلیوں کے جو اعضائے رئیسہ دل، دماغ اور پھیپھڑوں وغیرہ کی حفاظت کرتی ہیں، طاغوت کو سب سے زیادہ خوف اور چڑھ اسلام کے اسی حکم سے ہے اسی لیے انہوں نے مکمل سازش کے ساتھ دہشت گردی اور جہاد کو مترادف بنادیا ہے، بہرحال نظریاتی بحث کرنے کے بجائے ہندوستان میں اس پر فی الحال محدود عمل اس طرح کیا جاسکتا ہے کہ ہر گاؤں میں اسکاؤٹ ٹریننگ کا انتظام ہو اور قانون کے دائرے میں رہ کر جو بھی آلات دفاع استعمال کئے جاسکتے ہیں ان کی تربیت دی جائے اور اتنی ہمت پیدا کی جائے کہ جب کبھی شر پسندوں کی جانب سے مڈبھیڑ کی نوبت آئے تو دفاع کے وقت ہم یہ نہ سوچیں کہ میرے بعد میرے گھر والوں کا کیا بنے گا، ہمارے دلوں میں مرنے کے خوف پر مارنے کے حوصلے اور تدبیر کا غلبہ ہو، جس کی اجازت ہمیں آئینِ ہند بھی دیتا ہے، اگر اتنی ہمت ہمارے معاشرے میں نہیں ہے تو پھر ہمارا معاشرہ بغیر ہڈی کے بس زندہ گوشت کا لوتھڑا ہے اور کچھ نہیں، اور اسی کم ہمتی کی وجہ سے ہمارے مسلم آئی اے ایس اور آئی پی ایس بن کر بھی قوم پر ہورہے ظلم کے خلاف کچھ کر یا بول نہیں پارہے ہیں، یہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب بطور معاشرہ ہم ہر ایک کو تحفظ فراہم کریں یہ یقین دلائیں کہ تمہاری پشت پر پورا سماج کھڑا ہے۔
8 معاشرے کی زبان، ہاتھ اور پاؤں = معاملات و معاشرت:
یہی وہ اعضاء ہیں جن کے ذریعے آدمی اپنے اعمال انجام دیتا ہے یعنی انسان کے بدن میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی چیزیں یہی ہیں، اسی طرح سے اسلام میں معاملات و معاشرت کا باب سب سے وسیع اور اکثر احکام کو شامل ہے، اور اس کی اہمیت کا اندازہ اس چیز سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن جیسی ابدی کتاب جب معاملات اور معاشرت کو بیان کرتی ہے تو ایسی چھوٹے چھوٹے احکام کا بھی تذکرہ کرتی ہے جن کا فرائض و واجبات سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا اور جنہیں ہم آداب سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے مثلاً تین وقت غلاموں اور نابالغ لڑکوں کا گھر میں داخلے سے پہلے اجازت لینا، کسی کے بھی گھر میں داخل ہونے سے پہلے اجازت لینا اور سلام کرنا، اگر لوٹنے اور بعد میں آنے کے لئے کہا جائے تو لوٹ جانا، یہیں سے ایک بات سمجھ میں آتی ہے اسلام کو جب ہم ایک نظام حیات کے طور پر قبول کرتے ہیں تو پھر فرائض و واجبات حرام و مکروہ تحریمی سے لے کر سنن و مستحبات اور آداب و اخلاق وغیرہ ساری چیزیں اہم ہوجاتی ہیں، ورنہ تو اللہ تعالیٰ قرآن میں صرف فرائض و واجبات اور حرام اور ناجائز چیزوں کا تذکرہ کرتے مستحبات و آداب کا نہیں۔
9 معاشرے کی چمڑی، خدوخال اور حلیہ = اخلاق:
جس طرح انسان کی چمڑی اس کی بدصورتی کو چھپاتی اور اس کے حسن کی تکمیل کرتی ہے بعینہ اسی طرح اخلاق ایک معاشرے کو حسین بناکر اسے مکمل کرتے ہیں، انسان جب کسی کو دیکھتا ہے تو اولا اس کی ظاہری شکل و شباہت دیکھ کر ہی مرعوب ہوتا اور اپنی پسند ناپسند، دل چسپی عدم دل چسپی کا فیصلہ کرتا ہے، یہی حال اخلاق کا ہے کہ لوگ ہمارے اخلاق اور برتاؤ کو دیکھ کر یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ یہ معاشرہ کیسا ہے اور اسلام کیسا مذہب ہے۔
10 معاشرے کی غذا = دعوت و تبلیغِ دین:
جس طرح انسان بغیر غذا کے زیادہ دن زندہ نہیں رہ سکتا اسی طرح ایک اسلامی معاشرہ بغیر دعوت کے زیادہ دن زندہ نہیں رہ سکتا، جس طرح غذا جسم کے لیے ہر قسم کی تقویت کا سامان بنتی ہے اسی طرح دعوت و تبلیغ سے امت مسلمہ کو ہر قسم کی تقویت پہنچتی ہے، افسوس ہے کہ ہم نے آج اسے اپنی ترجیحات میں شامل نہیں کررکھا ہے۔
اسلام میں اسی دعوت و تبلیغ کے تحت آتا ہے ذرائع ابلاغ یا میڈیا (تبادلہ خیال، ترسیل اور آگاہی کے ذرائع مثلاً ریڈیو، ٹی وی، نیوز پیپر، میگزین، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا جو انسانوں کو بڑے پیمانے پر خبریں پہنچاتی اور متاثر کرتی ہیں)، اس تعریف سے یقیناً یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ صحافی صرف ترسیل نہیں بلکہ تاثیر بھی کررہا ہوتا ہے اس لیے صحافت کا کام صرف حقائق پیش کرنا نہیں بلکہ اچھی باتوں کو اس طرح پیش کرنا ہے کہ اس کی طرف رغبت ہو اور بری باتوں کو صرف اتنا اور اس طرح بیان کرنا کہ اس سے دل میں نفرت پیدا ہو نہ کہ محض حقائق سے واقفیت جیساکہ آج کل کی نام نہاد صحافت محض حقائق کا آئینہ دکھانے کو اپنی معراج اور کل کائنات سمجھتی ہے اور جس کے نتیجے میں برائیوں کی گفت و شنید اتنی عام ہوگئی ہے کہ اس کی قباحت ہمارے دلوں سے رفتہ رفتہ نکلتی ہی نہیں جارہی بلکہ اس کی طرف دھیرے دھیرے رغبت بھی بڑھ رہی ہے۔
اور چوں کہ انسان کا ذہن وہی سوچتا اور کرتا ہے جو وہ دیکھتا اور سنتا ہے اس لیے مظاہر کو بدلنا اور غلط مظاہر پر قابو پانا بے حد ضروری ہے۔
خلاصہ کلام یہ کہ جس طرح انسان کے لیے اس کے جسم کا ہر حصہ اہمیت رکھتا ہے اسی طرح جب ہم مجموعی تقویتِ امت کی بات کرتے ہیں تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ معاشرے کے ہر فرد کو اجتماعیتِ اسلام کا حصہ بنائیں اور اسلام کے ہر شعبے اور اس سے منسلک حضرات کی معاونت کے ساتھ کام کریں نہ کہ اس طرح کہ اگر آپ اس شعبے میں کام کررہے ہیں تو کسی دوسرے شعبے میں کام نہیں کرسکتے یا ایک تحریک سے جڑنے کے بعد کسی دوسری تحریک سے نہیں جڑسکتے۔