تحریر: محمد ابوبکر عابدی، قاسمی ندوی
ہندوستان دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہے، 15 اگست 1947ء کو یہ ملک انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوا اور 26 جنوری 1950ء کو نئے آئین کے نفاذ کے ساتھ اسے جمہوری ملک قرار دیا گیا، 26 جنوری کی تاریخ آزاد ہندوستان میں نہایت اہمیت کی حامل ہے، اس دن تمام سرکاری، غیر سرکاری، کالجز یونیورسٹیز، دفاتر وغیرہ بند رہتے ہیں، ملک بھر میں قومی جھنڈا لہرانے کی رسم ادا کی جاتی ہے، قومی ترانہ پڑھاجاتا ہے اور لوگ قومی ترانہ کو سلامی دیتے ہیں ۔
ہر سال پورے ملک میں شان دار تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے، جس میں صدر جمہوریہء ہند وزیراعظم سمیت حکومت کے تمام وزراء، ممبران پارلیمنٹ شرکت کرتے ہیں، غرض یہ کہ یہ ایک یادگار اور پر اثر تقریب ہوتی ہے ۔
اس دن کی اہمیت یہ ہے کہ آزادی کے بعد یہ طے کیا گیا کہ ہندوستان کا اپنا آئین بنایا جائے جس میں اس ملک کے تمام باشندوں کے حقوق کا تحفظ بھی ہو اور ان کی خوش حالی اور پر امن زندگی کی ضمانت بھی، اس مقصد کے حصول کے لیے دستور ساز اسمبلی نے سات افراد پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی، جس کے صدر ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر تھے ۔ اس کمیٹی نے دو سال گیارہ مہینے اٹھارہ دن یعنی تین سال کی مسلسل کاوش کے بعد ملک کا آئین تیار کیا، جسے ملک کے پارلیمنٹ نے منظور کرکے 26 جنوری 1950ء کو یہ اعلان کردیا کہ ملک میں اب یہ دستور چلے گا اور ہر شہری کو اس کی پابندی کرنی ہوگی، اس آئین کی رو سے ہمارا ملک جمہوریہ ء ہند کہلایا ۔
1950ء میں منظور ہونے والے دستور ہند میں بائیس ابواب بارہ شڈول اور تین سو پنچانوے دفعات تھیں، اس وقت سے اب تک اس دستور کی متعدد دفعات ختم کردی گئی ہیں اور اس میں کئی ایک دفعات کا اضافہ کردیا گیا ہے ۔
26 جنوری 1950ء کو جو دستور نافذ ہوا اس میں یہاں کے ہر شہری کو بنیادی حقوق دیے گئے ہیں، جیسے آزادی اور مساوات ۔ یہ دونوں لفظ اپنے مفہوم کے اعتبار سے بڑی وسعت رکھتے ہیں ۔ آزادی میں ہر طرح کی آزادی، رہنے کی آزادی، کمانے اور کھانے پینے کی آزادی، سماجی اور معاشرتی آزادی، مذہبی آزادی ۔ یہی حال مساوات کا ہے، یہ بھی اپنے معنی و مفہوم کے لحاظ سے بڑا وسیع ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ باشندگان ملک کو ہر معاملے میں مساوات اور برابری حاصل ہو، مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ملک کے معماروں نے، ہندوستان کو سیکولر جمہوریہ بنانے والوں نے تو ملک کے ہر شہری کو دستور کا تحفظ دیا، برابری دی، حقوق دیے، حصول تعلیم، حصول انصاف اور حصول معاش کے یکساں مواقع فراہم کیے؛ لیکن حکومتوں نے اپنے حقیر مفاد کی خاطر اس دستوری تحفظ کو برباد کرکے رکھ دیا ہے، آج ہمارا ملک جن حالات سے گزر رہا ہے وہ سب کے سامنے جگ ظاہر ہے اور جن حالات سے گزر کر یہاں تک پہنچا ہے وہ بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں ۔ یہ صحیح ہے کہ ہندوستان جیسے کثیر المذاہب ملک کے لیے جمہوریت سے بہتر کوئی طرز حکومت نہیں ہے؛ لیکن ہم نے جمہوریت کے نام پر جو طریقہء کار اختیار کررکھا ہے اسے حقیقی جمہوریت کے بجائے طلسم یا فریب کہا جائے تو زیادہ بہتر ہے ۔ ملک کو آزاد ہوئے تقریباً 75 سال اور جمہوریہ بنے 72 سال ہوگئے ہیں، اگر ماضی کی طرف مڑکر دیکھا جائے تو یہ آزادی اور جمہوریت محض سراب معلوم ہوتی ہے، جو دور سے دیکھنے میں بہت خوب صورت اور دل کش ہے؛ مگر قریب جاکر دیکھا جائے تو سیاہ اور چمکیلی ریت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے؛ لیکن پھر بھی مسلمانوں کو زیادہ مایوس ہونے کی ضرورت نہیں، کیوں کہ ایک نہ ایک دن نا انصافیوں کی یہ رات ضرور ختم ہوگی اور اس کے پہلو میں انصاف اور مساوات کا سورج ضرور طلوع ہوگا ۔
بہر حال جمہوریت ڈکٹیٹر شپ سے بہتر نظام حکومت ہے، جمہوریت کی عمارت چار ستونوں پر قائم ہوتی ہے، اگر ان میں سے ایک ستون بھی کمزور پڑ جائے تو پوری عمارت کے گرنےکا خطرہ لاحق رہتا ہے، وہ چار ستون یہ ہیں : 1 مقننہ ( پارلیمنٹ) 2 انتظامیہ (گورمنٹ) 3 عدلیہ (جوڈیشری) 4 ذرائع ابلاغ ( میڈیا)، جمہوریت کے قیام اور اس کی بقاء میں یہ چاروں ادارے اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہیں ۔اور ہر کردار اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے ۔ دنیا میں جہاں بھی جمہوریت ہے وہاں یہ چاروں ادارے موثر طریقے پر اپنا کردار ادا کرتے ہیں، ان میں سے کوئی ادارہ کمزور پڑتا ہے تو جمہوریت کمزور پڑ جاتی ہے؛ بل کہ بعض اوقات تانا شاہی کی شکل اختیار کرلیتی ہے ۔ لہذا تمام جمہوری ملکوں کے حکمرانوں کو بالخصوص مادر وطن ہندوستان کے حکمراں طبقہ کو اپنی اپنی ذمہ داریاں سمجھ کر ہوش کے ناخن پکڑنی چاہیے؛ تبھی جاکر جمہوریت کا یہ سفر کامیاب ہوسکتا ہے ورنہ ملک کو تباہی و بربادی سے بچانا بہت مشکل ہے ۔
موبائل نمبر : 8271507626