اسلام میں ریاست کے حکمراں اور ان کے عام شہری آپس میں فریق نہیں!
تحریر:محمد عبدالحفیظ اسلامی
سینئر کالم نگارو آزاد صحافی۔ فون نمبر:9849099228
گزشتہ کے مضمون میں یہ بات آئی تھی کہ دنیا میں پائے جانے والے غیر الٰہی دستاتیر اور اسلام کے عطا کردہ دستور انسانی حقوق میں زمین آسمان کا فرق ہے، کیونکہ مغرب والے اپنے کو انسانی حقوق کے سب سے بڑے علمبردار کہلواتے ہیں، لیکن اس کی حقیقت کچھ اور ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ ان کے وضع کردہ ضوابط ’’بنیادی حقوق‘‘ کا دائرہ صرف اور صرف ’’فرد‘‘ اور ’’ریاست‘‘ کے درمیان محدود ہے۔ اگر گہرائی کے ساتھ ان کے تصور بنیادی حقوق کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات صاف نظر آتی ہے کہ جن چیزوں کو یہ لوگ بنیادی حقوق کے دائرے میں شامل رکھتے ہیں وہ صرف دو باتوں پر مشتمل ہے‘ جو ایک ریاست کے وسیع اختیارات کے مقابلے میں ایک شہری کو حاصل ہوتے ہیں۔ ان کی حیثیت نمبر ایک ’’دفاعی‘‘ نمبر دو ’’حفاظتی‘‘ ہے اور ان کا بنیادی مقصد بے اختیار شہریوں کو بااختیار حکمرانوں کے ظلم وستم سے محفوظ رکھنا ہے۔ اور جہاں جہاں بھی جس کسی دستور میں ان حقوق کو شامل رکھا جاتا ہے وہاں صاف نظر آتا ہے کہ ریاست اور ان کے شہری ایک فریق کی حیثیت رکھتے ہیں گویا کہ ان کے دستور کی نوعیت ان کے درمیان ایک سمجھوتے جیسی ہوتی ہے یعنی ایک طرف ایک فریق کیلئے تسلیم شدہ اختیارات اور دوسرے کیلئے تسلیم شدہ حقوق کی حدیں مقرر کردی جاتی ہیں۔
اس کے علی الرغم و برخلاف اسلام میں عام شہری اور ان کی ریاست کے حکمران باہم فریق نہیں ہوتے ہیں۔ نہ شہری کے حقوق حکمراں کے تسلیم شدہ ہیں اور نہ حکمران کے اختیارات شہری کے منظور کردہ۔ ان کے درمیان آپس کی رضامندی اور اتفاق رائے سے مرتب ہونے والی کوئی ایسی آئینی دستاویز بھی نہیں جس میںحسب منشا طبع ذات طریقہ پر، حقوق واختیارات کی حدود متعین کرلی گئی ہوں، کیونکہ خواہ حکمراں ہوں یا شہری یہ دونوں ایک جیسی حیثیت میںاپنے حقیقی رب ومقتدر اعلیٰ کے ساتھ ایک عہد وفاداری میں بندھے ہوئے ہیں، اور یہ حقیقت بھی پیش نظررہنی چاہیے کہ بحیثیت خلیفۃ اللہ ان کا منصب بھی ایک ہی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آدم کو اپنا جو خلیفہ بنایا ہے اس کی نوعیت صرف کسی خاص گروہ یا فرد یا چند افراد یا کسی خاص رنگ ونسل کی اردگرد نہیںگھومتی بلکہ ’’من حیث الجماعت‘‘ پوری امت مسلمہ کو سونپی گئی ہے۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے لوگوں سے یہ وعدہ کیا ہے جو تم میںسے ایمان لائے ہیں، اور جنہوں نے نیک عمل کیا ہے کہ وہ ضرور ان کو زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح اس نے ان سے پہلے لوگوں (مومنین وصالحین) کو خلیفہ بنایا تھا (سورۃ النور:55) قرآن حکیم کے اس ارشاد کے مطابق یہ بات واضح ہورہی ہے کہ خلافت کا نیابتی اقتدار تمام مسلمانوں کو بحیثیت مجموعی حاصل ہے۔
اس طرح خلافت تو دراصل پوری امت کو عطا کی گئی ہے، چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ’’خلیفۃ اللہ‘‘ کہلانے سے انکار کردیا تھا۔ کیونکہ خلافت تو اصل میں پوری امت کو عطا کی گئی تھی نہ کہ ان کی ذات کو۔ ان کی خلافت کی اصل حیثیت یہ تھی کہ مسلمانوں نے اپنی مرضی سے اپنے اختیارات خلافت ان کے سپرد کردئیے تھے۔ خلافت کی اسی حقیقت کے پیش نظر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ’’امیر المومنین‘‘ کے خطاب پر اظہار پسندیدگی فرمایا اور پھر یہی اصطلاح بعد کے خلفائے راشدین کیلئے بھی مروج رہی۔ یہاں یہ بات بھی بڑی اہم اور ذہن نشین کرلینے کی ہے کہ مسلمانوں کا امیر اور اس کی حدود امارت میں بسنے والے شہری اپنے اپنے دائرہ عمل میں حدود اللہ کے پابند ہیں ‘ اور یہ بات بھی واضح طور پر سمجھ لینی چاہیے کہ ’’امیر اور شہری‘‘ کے درمیان اختیارات اور حقوق باہمی طور پر تسلیم شدہ نہیں ہیں بلکہ حقیقی متقدر اعلیٰ کے طے کردہ ہیں، تو پھر یہ بات لازم آتی ہے کہ ان دونوں قرآن وسنت کے ایک ایسے ناقابل ترمیم اور ناقابل تنسیخ دستور کے تحت زندگی بسر کرنے کے پابند ہیں جس کی کوئی ایک دفعہ بھی ان کے درمیان قابل گفت وشنید (Negotiable) نہیں۔ ان کے حقوق واختیارات میں کوئی ٹکرائو نہیں۔ یہ دو ایسے آپس میں جڑے ہوئے متصل دائرے ہیں جن کے خطوط کہیں ایک دوسرے کو منقطع نہیں کرتے۔ اس لئے کہ تعلیم اسلامی نے بنیادی حقوق کے عملی نفاذ اور ان کے حصول کی یقینی ضمانت کیلئے جتنے مضبوط جو تحفظات فراہم کئے ہیں گزشتہ سطور میں ضمناً اس کا ذکر کردیا گیا تھا۔ لیکن اب اس کے خلاصہ کے طور پر مختصر طور پر اس کا اعادہ درج ذیل تحریر کیا جاتا ہے جس کے ذریعہ ہمیں معلوم ہوجائے گا کہ آج سارے عالم انسانیت کا اہم مسئلہ ان کے حقوق کا تعین، ان کی حسین و خوشنما فہرستوں کی تیاری، مملکت کے دستور میں ان کی شمولیت، بین الاقوامی منشور و اعلانات کا اجزاء اور ’’یوم انسانی حقوق‘‘ کا انعقاد نہیں ہے! بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ جن حقوق کو انسانی حقوق گنوایا اور تسلیم کیا جارہا ہے انہیں حاکمان وقت کے ہاتھوں غصب ہونے اور پیروں تلے روندے جانے سے کیسے بچایا جائے!!
یہی وہ اصل چیز ہے جسے اسلام نے اپنے نظام حکومت میں اس عملی پہلو پر خصوصی توجہ دی ہے۔ اور انسانی حقوق کو ایسے موثر ومستحکم تحفظات مہیا کئے ہیں جو ایک طرف حکمرانوں کے اندر آمریت و فسطائیت (یعنی طاقت کے زور پر حکومت و انتہا پسند قوم پرستی کے نظریے) کے جراثیم کی پرورش کے امکان اور انہیں ظلم وستم اور جبرو تشدد کی راہ پر لے جانے والے اسباب و محرکات کی جڑ کاٹ دیتے ہیں اور دوسری طرف عام شہریوں کو انسانی اقتدار سے مرعوبیت و خوفزدگی اور اس کے مقابلے میں اپنی بے بسی وبے چارگی کے منفی احساسات سے نجات دلا کر ان کے اندر خود اعتمادی، بلند حوصلگی اور جرآت وبے باکی کے جوہر ابھار کر ایک ایسی زبردست قوت مزاحمت پیدا کردیتے ہیں کہ کسی شخص کیلئے ان پر اپنی حاکمیت مسلط کرنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔
اسلام میں نوع انسان کیلئے جو بنیادی حقوق عطا کردئیے گئے ہیں جن میںتحفظ جان سے لے کر ذمیوں کے خصوصی حقوق تک ایک لمبی فہرست ہے جس پر روشنی ڈالنے سے قبل، ہمیں یہ سمجھ لینا بے حد ضروری ہے کہ اسلام نے انسانوں پر ظلم وستم کرنے والی حکمرانی، آمریت و فسطائیت جبر و استبداد کے ذرائع کو کس طرح اس پر روک لگائی ہے اس سلسلہ میں مولانا محمد صلاح الدین مرحوم ایڈیٹر جسارت اپنی کتاب ’’بنیادی حقوق‘‘ میں جو لکھا ہے اس کاطویل اقتباس قارئین کی خدمت میں پیش ہے جس سے اسلام کی صحیح تصویر سے ہمیں واقفیت ہوتی ہے۔ چنانچہ انہوں نے یوں تحریر فرمایا:
’’ قرآن نے آمریت کی حقیقت کو ایک چھوٹی سی آیت میں سمو کر ہم پر واضح کردیا ہے کہ اس کا اصل سبب کیا ہے اور وہ اپنا تسلط جمانے میں کامیاب کیونکر ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرعون کو بدترین نمونہ آمریت کے طور پر ہمارے سامنے پیش کیا ہے اور اس کے کردار کی جو خرابیاں ایک ایک کرکے گنوائیں ہیں، ان میں سے ایک بلکہ ان سب کی جڑیہ ہے۔
’’ وہ اپنی قوم کو ہلکا کہتا تھا۔‘‘ (الزخرف:۵۴)
یعنی فرعون اپنے مقابلے میں اپنی قوم کے افراد کو پست و ذلیل اور کمزور سمجھتا تھا اور اس کا یہی انداز فکر خدائی کے دعوے اور آمریت وفسطائیت کی اصل جڑ تھا۔ اس کے فوراً بعد ارشاد ہوتا ہے: ’’ اوراس نے (قوم نے) اس کی اطاعت کی درحقیقت وہ تھے ہی فاسق لوگ۔‘‘ (الزخرف:۵۴)
یہ وہ سبب تھا جس کی بنیاد پر فرعون کی آمریت کا سکہ چل رہا تھا۔ اس کا جرم تو یہ تھا کہ وہ اپنی قوم کو ہلکا اوربودا سمجھ کر اس پر ہر طرح کے مظالم ڈھا رہا تھا۔ اور انہیں اپنے سامنے پستی و ذلت میں مبتلا دیکھ کر اس کی انانیت تسکین پاتی تھی۔ ’’ان میں سے ایک گروہ کو وہ ذلیل و خوار کرتا تھا۔‘‘ (القصص: ۴۰)
لیکن خدا کے نزدیک وہ قوم بھی کچھ کم قابل مذمت نہ تھی جو اس کی خدائی کے سامنے سرجھکا رہی تھی اور اس پستی وذلت پر رضامند ہوگئی تھی۔ قرآن نے اس جرم کی مرتکب قوم کو فاسق قرار دیا ہے یعنی اللہ کی حدوں کو توڑنے والی۔ اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حدود میں سے پہلی اور سب سے اہم حد یہ ہے کہ اس کے سوا کسی کو اپنا معبود و فرماں روانہ بنائو جو قوم اس جرم کا ارتکاب کرے گی اسے قوم فرعون کے سے حشر کا سامنا کرنا ہوگا۔
اپنے بندوں کو ذلت وخواری کے اس عذاب سے محفوظ رکھنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے اپنے ضابطہ حیات میں ایک طرف آمریت کے انسداد کا پورا پورا اہتمام کیا ہے اور دوسری طرف عام لوگوں کو آمریت کیلئے ناقابل تسخیر بنادیا ہے۔ اس سلسلہ میں اسلام کے نظام حکمرانی میں جو تحفظات مہیا کئے گئے ہیں انہیں ہم چارحصوں میںتقسیم کرسکتے ہیں۔
(الف) تطہیرتصورحاکمیت (ب) تطہیر قیادت
(ج) تحدید اختیارات (د) احتساب امارت
اب ان میں سے ہر ایک کا مختصراً جائزہ لیجئے۔
تطہیر تصورحاکمیت:
(۱) نظریہ اقتدار اعلیٰ: اسلام نے اپنی اصلاحی اسکیم کا آغاز تصور حاکمیت کی تبدیلی سے کیا ہے۔ قرآن کے اس اعلان کے بعد کہ اللہ تعالیٰ تمہارا خالق و مالک اور رازق و رب ہی نہیں ہے حاکم وفرمانروا بھی ہے، اسلامی ریاست میں انسانی حاکمیت کی جڑ کاٹ دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کو مقتدر اعلیٰ مان لینے کا مطلب یہ ہے کہ انسانوں میں حاکم ومحکوم کی تقسیم ختم ہوئی۔ ادنیٰ شہری سے لے کر اعلیٰ ترین عہدیدار تک سب مساوی الحیثیت قرار پائے، انسان اپنے ہی جیسے کسی دوسرے انسان کی غلامی سے آزاد ہوا اور جو لوگ ان کے امور ریاست کے نگراں بنے وہ احکم الحاکمین کے سامنے جواب دہی اور آخرت کی سزا کے خوف سے مغلوب ہوکر اپنی اطاعت کرانے کی بجائے خود اتباع قرآن وسنت کی راہ پر گامزن ہوئے۔ اس تصور حاکمیت کے تحت نہ کسی انسان کیلئے آمریت کی راہ پر قدم بڑھانے کا کوئی امکان باقی رہتا ہے اور نہ شہریوں کی گردن میں اتنی لچک اور نرمی پیدا ہوپاتی ہے کہ وہ کسی آمر کے سامنے سر اطاعت خم کردیں۔ نہ کوئی امیر یا امام غصب حقوق کا تصور کرسکتا ہے اور نہ قوم کسی کو ان حقوق پر ہاتھ ڈالنے کی اجازت دے سکتی ہے جو مقتدر اعلیٰ نے اسے عطا کئے ہیں۔
یہ تصور حاکمیت انسانی حقوق کے بارے میں حکومت کا رویہ یکسر تبدیل کردیتا ہے۔ یہ اسی تصورحاکمیت کا کرشمہ ہے کہ خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ بیعت خلافت کے بعد اپنے اولین خطبے میں فرماتے ہیں۔ ’’تمہارا کمزور شخص میرے نزدیک قوی ہے، جب تک میں اسے اس کا حق نہ دلادوں، اور تمہارا قوی آدمی میرے نزدیک کمزور ہے، جب تک اس کے ذمہ جو حق ہے وہ اس سے نہ لے لوں۔
یہ تو انسانی حقوق کا معاملہ تھا۔ اور ان کے نفاذ واحترام کی ذمہ داری نے انہیں اپنے سوا دو سالہ عہد خلافت میں اقتدار کی ’’لذتوں ور راحتوں‘‘ سے کتنا لطف اندوز ہونے کا موقع دیا! اس کے بارے میں وفات سے قبل بڑے غمگین لہجے میں فرماتے ہیں: ’’کاش میں سقیفہ بنی ساعدہ والے دن خلافت کا بار عمرؓ اور ابوعبیدہؓ میں سے کسی پر ڈال دیتا۔ ان میںسے کوئی امیر ہوتا اور میں اس کا وزیر‘‘۔
آخری وصیت میں دوسری باتوں کے علاوہ یہ ہدایت بھی شامل تھی۔ ’’میں نے دوران خلاف بیت المال سے جو رقم لی تھی اسے واپس کردیا جائے اور اس غرض سے میری فلاں زمین بیچ کر اس سے حاصل شدہ رقم بیت المال میں جمع کرادی جائے‘‘۔
چنانچہ حضرت عمرؓ نے آپ کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے زمین بیچ کر یہ رقم بیت المال میں جمع کرادی۔ حضرت ابوبکرؓ نے اپنی تجہیز وتکفین کے بارے میں وصیت فرمائی کہ انہیں دو کپڑوں میںکفن دیا جائے جو وہ بالعموم پہنا کرتے تھے، کیونکہ نئے کپڑے پہننے کا زیادہ حقدار زندہ شخص ہے۔
جہاں لوگوں کے حقوق کے سلسلہ میں یہ عزم واحساس ذمہ داری اور خود اپنے نفس کے حقوق کے معاملہ میں ایثار و قربانی کا یہ جذبہ کارفرما ہو وہاں آمریت کے تسلط کا کیا امکان باقی رہ جاتا ہے؟
خلیفہ ثانی حضرت عمرؓ منصب خلافت پر مامور کئے جانے کے بعد اپنے خطبہ میں فرماتے ہیں: ’’ اگر مجھے یہ معلوم ہوتا کہ اس بوجھ کو اٹھانے والا کوئی شخص مجھ سے زیادہ طاقت والا ہے تو اس ولایت کو قبول کرنے کی نسبت مجھے یہ زیادہ پسند ہوتا کہ کوئی میری گردن اڑادیتا۔
یہ تو ’’خواہش اقتدار‘‘ کی بات تھی اب نفاذ حقوق کا عزم دیکھئے۔
’’لوگو! تمہارے معاملات کا میں والی وارث بنایاگیا ہوں۔ مگر تمہیںمعلوم ہونا چاہیے کہ میری سختی اب کم ہوگئی ہے، البتہ ظلم اور دست درازی کرنے والوں کیلئے بدستور رہے گی، لیکن جو صاحب دین وتقویٰ ہیں، میں ان کیلئے بہت ہی نرم ہوں۔ میں کسی کو کسی پر ظلم نہیں کرنے دوں گا جب تک کہ اس کے ایک رخسار کو زمین پر نہ رگڑ دوں اور اس کے دوسرے رخسار پر اپنا قدم نہ رکھ دوں۔ حتیٰ کہ وہ حق کے سامنے اپنا سرجھکا دے۔ اس سختی کے باوجود میں اپنا رخسار اہل عفت وصواب کیلئے زمین پر رگڑتا ہوں۔
اور آخر میں ’’فیض اقتدار‘‘ کی تفصیل ملاحظہ فرمائیے۔ شہادت کے وقت بیٹے سے دریافت فرمایا ’’اے عبداللہ بن عمر! دیکھ میرے اوپر کتنا قرض ہے۔‘‘
حساب لگایا گیا توچھیاسی ہزار درہم کے لگ بھگ نکلا۔
فرمایا: ’’ اگر آل عمر کا مال اسے پورا کرسکے تو اس سے ادا کردینا ورنہ بنو عدی سے درخواست کرنا۔ اگر پھر بھی پورا نہ ہوتو قریش سے سوال کرنا ان کے علاوہ اور کسی سے نہ مانگنا۔‘‘
حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف نے کہا:
’’بیت المال سے قرض لے کر کیوں ادا نہیں کردیتے؟‘‘
فرمایا ’’معاذ اللہ میرے مرنے کے بعد تم اور تمہارے دوست یہ نہ کہیں کہ ہم نے اپناحصہ عمرؓ کیلئے چھوڑ دیا۔ اس طرح تم لوگ مجھے زیر بار کروگے اور ایک مشکل میںپھنسادو گے کہ خداہی نکالے گا تو نکل سکوںگا۔
اس کردار کاجوہر کیاتھا؟ وہی عقیدہ آخرت اور مقتدر اعلیٰ کے سامنے جوابدہی کا احساس، دم آخر سخت گھبراہٹ کا عالم تھا اور خوف سے تھرتھر کانپ رہے تھے۔ حضرت ابن عباسؓ نے تسلی دی تو فرمایا۔ ’’خدا کی قسم اگر میرے پاس زمین بھر سونا ہوتا تو عذاب الٰہی کے دیکھنے سے پہلے پہلے اسے قربان کردیتا۔
حضرت ابن عباسؓ نے آپ کے عہد خلافت کی تعریف کی تو کہا ’’کیا خلافت وامارت کے بارے میں میری تعریف و تزکیہ کرتے ہو؟ میںرسولؐ اللہ کے ساتھ رہا تو وہ مجھ سے خوش رہے اور ابوبکرؓ کے ساتھ رہا تو دم وفات تک فرمانبرداری کرتا رہا۔ مجھے تو تمہاری اس امارت وخلافت سے خطرہ ہے۔‘‘
یہ ہے وہ کردار جو اللہ تعالیٰ کے اقتدار اعلیٰ پر ایمان کی اساس سے ابھرتا اور حکمرانوں کو انسانیت کیلئے ایک عذاب کی بجائے رحمت بناکر آمریت کا مکمل سدباب کردیتا ہے۔
(۲) تصور امانت
اسلامی ریاست میں انسانی حقوق کا دوسرا بڑا محافظ حکومت کا یہ تصور ہے کہ وہ ایک امانت ہے اوراس کے نگران اعلیٰ کی حیثیت ایک امین کی سی ہے۔ خدا اور بندے کے درمیان اس قول وقرار کے بعد کہ: ترجمہ: ’’کہو میری نماز، میرے تمام مراسم عبودیت ، میرا جینا اورمیرا مرناسب کچھ اللہ کیلئے ہے‘‘۔ (الانعام :۱۶۲)
’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں سے ان کے نفس اور ان کے مال جنت کے بدلے خرید لیے ہیں۔‘‘ (التوبہ: ۱۱۱)
مسلمان کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی سونپی ہوئی ایک مقدس امانت بن گئی ہے اوروہ اپنا حق تصرف خود اپنی آزادانہ مرضی اور اپنے بے لگام اختیار ارادے سے نہیں بلکہ اصل مالک کی مرضی اوراس کی دی ہوئی ہدایات کے مطابق استعمال کرنے کا پابند ہوگیا ہے۔ یہ اسی تصور امانت کا نتیجہ ہے کہ جب کوئی شخص کسی دوسرے شخص کے ساتھ ظلم کرتاہے تو اللہ تعالیٰ اسے امانت نفس کا مجرم ٹھہراتا ہے۔ چنانچہ بنی ظفر کے طعمہ بن ابیرق نے جب ایک یہودی پر زرہ کی چوری کا جھوٹا الزام لگایا تو حضورؐ سے ارشاد ہوا: ’’جو لوگ اپنے نفس سے خیانت کرتے ہیں تم ان کی حمایت میں نہ جھگڑو۔‘‘ (النساء : ۱۰۷)
گویا جس نفس کو بندہ اپنے رب کے ہاتھوں فروخت کرچکا ہو اگروہ اسے بے جا تصرف میں لاتا ہے تو امانت میں خیانت کرتا ہے۔ امانت نفس کا تقاضا ہے کہ بندہ ہمیشہ حق گوئی اور دیانت داری کا راستہ اختیار کرے۔ جھوٹ اوردغابازی سے کسی اور کا نہیں خود اس کے مرتکب کا سب سے زیادہ نقصان ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ خائن بن کر اصل مالک کی نظروں میں گرتا اور اس کی عدالت سے سخت سزا پانے کامستحق بن جاتا ہے۔ ظلم کی اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا۔ ’’اور جو کوئی اللہ کی حدوں سے تجاوز کرے گا وہ خود اپنے اوپر ظلم کرے گا۔‘‘ (اطلاق: ۱)
یعنی ظالم کے ظلم کا اولین نشانہ خود اس کی اپنی ذات بنتی ہے۔ اس کے ظلم سے کسی اور کا کچھ بگڑتا ہو یا نہ بگڑتا ہو اس کی اپنی ہلاکت وبربادی کا سامان ضرور ہوجاتا ہے۔
اس تصور امانت کی رو سے ہر شخص پر احتساب و ذمہ داری کا بار بقدر امانت ہے۔ جس کے پاس اسباب و وسائل اور اختیارات و اقتدار کی جتنی امانت موجود ہے وہ اسی تناسب سے اپنے مالک کے حضور اپنے اعما ل وافعال کا جوابدہ ہے۔ خلفائے راشدینؓ اور صحابہ کرامؓ کو اس تصور امانت کا پوراپورا شعور واحساس تھا۔ اسی لیے وہ ذمہ داری کا کوئی منصب سنبھالنے سے دور بھاگتے تھے اور جب قوم کے مطالبہ یا امیر کے حکم سے وہ کوئی منصب سنبھال لیتے تھے تو اس کا حق ادا کردیتے تھے۔ ان پر جواب دہی کا خوف اس درجہ غالب رہتا تھا کہ معاشرہ میں ان سے زیادہ خدا سے ڈرنے والا کوئی اور نہیں ہوتا تھا۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ فرماتے ہیں: ’’جو شخص حکمراں ہو اس کو سب سے زیادہ بھاری حساب دینا ہوگا۔ اوروہ سب سے زیادہ سخت عذاب کے خطرے میں مبتلا ہوگا۔ اور جو حکمران نہ ہو اس کو ہلکا حساب دینا ہوگا۔ اوراس کیلئے ہلکے حساب کا خطرہ ہے کیونکہ حکام کیلئے سب سے بڑھ کر اس بات کے مواقع ہیں کہ ان کے ہاتھوں مسلمانوں پر ظلم ہو۔ اور جو مسلمانوں پر ظلم کرے وہ خدا سے غداری کرتا ہے۔
حضرت عمر ؓ کے خوف آخرت کا یہ عالم تھا۔ ’’دریائے فرات کے کنارے ایک بکری کا بچہ بھی اگر ضائع ہوجائے تو مجھے ڈر لگتا ہے کہ اللہ مجھ سے باز پرس کرے گا۔ حضرت عمرؓ پر بارامانت کی ذمہ داری کا احساس شدت سے طاری ہوتا تو زمین سے مٹی اٹھا لیتے اور اسے مٹھی میں بھینچ کر فرماتے: ’’اے کاش میں مٹی ہوتا، بلکہ کچھ بھی نہ ہوتا۔ اے کاش میری ماں مجھ کو نہ جنتی۔
یہی حال حضرت ابوبکرؓ حضرت عثمان ؓ اور حضرت علیؓ کا تھا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز ایک مرتبہ ساری رات مصلے پر بیٹھے روتے رہے، صبح کو بیوی نے اس غیر معمولی رنج وغم کا سبب دریافت کیا تو فرمایا: ’’میں نے اپنے آپ کو اس پوری امت کے سیاہ وسفید کاذمہ دار پایا۔ مجھے زمین کے مختلف گوشوں میں پھیلے ہوئے غریب الوطن، خستہ حال بھکاری، محتاج غرباء مجبور ومظلوم قیدی اور اسی قبیل کے دوسرے لوگ یاد آئے۔ مجھے یہ احساس ہوا کہ اللہ ان سب کے بارے میں مجھ سے محاسبہ کرے گا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان کے معاملہ میں میرے خلاف مقدمہ لڑیں گے۔ میں ڈرا کہ خدا کے آگے میرا کوئی زور نہ چلے گا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو میں کسی بھی دلیل سے مطمئن نہ کرسکوںگا۔ اس پر میری جان لرز اٹھی اور مجھے اپنے بارے میں بڑا ڈرلگنے لگا۔‘‘
ایک مسلمان کیلئے یوں تو جان ومال اور اس کے زیر تصرف ہر چیز خدا کی امانت ہے۔ لیکن خلاف و امارت کیلئے تو بالخصوص لفظ ’’امانت‘‘ ایک سیاسی اصطلاح کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ حضرت ابوذرغفاریؓ نے ایک باریہ خواہش ظاہر کی کہ مجھے بھی کسی جگہ کا امیر مقرر کردیا جائے تو حضورؐ نے ارشاد فرما:
’’تم کمزور ہو اور امارت ایک امانت ہے۔ قیامت کے دن یہ رسوائی اور پشیمانی کا باعث بن جائے گی۔ بجز اس شخص کے جو اس کا حق رکھتا ہو اور اسے اختیار کرکے اس سلسلہ میں عائد ہونے والی ساری ذمہ داریاں ادا کرے۔ اسی طرح آپؐ نے ایک موقع پر فرمایا:’’جس نے مسلمانوں کی کسی چیز پر بھی کسی ایسے شخص کو والی و حاکم بنادیا اس سے بہتر اور اصلح المسلمین موجود ہے تو اس نے اللہ اور اس کے رسولؐ سے خیانت کی۔
(جاری)