آیت مودت اور کربلا کا پیغام !

اللہ تعالی کا فرمان ہے: آپ فرما دے: میں اس پر تم سے کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتا مگر قرابت کی محبت(سورہ الشوریٰ۔آیت۔23)
جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا!
یا رسول اللہ ﷺ! آپ کی قرابت کون ہیں جن کی محبت ہم پر واجب ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : علی، فاطمہ اور ان کے دو بیٹے (حسن و حسین)۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔(أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 3 / 47، الرقم : 2641، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 168)
علماء نے اس بات کی تکذیب کی ہے کہ سورہ شوریٰ کی تمام آیات مکیّ ہیں(تفسیر خازن: 49،4۔ 4-90۔ الاتقان۔1،27۔1۔44۔الجامع لاحکام القرآن۔3-16۔غراءب القرآن۔ مج۔11،ج25-35۔تفسیر القازن 4-49، 4-90۔فتح القدیر4-510 ۔4-524)
جیسا کہ قرطبی و نیشاپوری وخازن وغیرہ نے اس بات کی تصریح کی ہے اور شوکانی نے اپنی کتاب فتح القدیر اور ان کے علاوہ ابن عباس و قتادہ نے کہا ہے کہ چاورں آیتیں اوریہ آیت ( قل لاأ سلکمُ علیہ اجراً الاّ المودۃ فی القربیٰ ) مدنی ہیں یعنی آیت مودت کے بعد یہ چاروں آیتیں مدنی ہیں اور ان کے علاوہ سب مکیّ ہیں۔
سیدنا عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے "آیت مودت نازل ہوئی تو لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ! آپ کے وہ قرابت دار جن کی مودت ہم پر واجب ہے، کون لوگ ہیں؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: علی کرم اللہ وجہ،فاطمہ علی جدہ و علیہ السلام حسن اور حسین رضوان اللہ علیہم اور یاد رکھو کہ مودت کا وجوب اطاعت و فرمانبرداری کے ساتھ لازم و ملزوم ہے۔
(أخرجه ابن أبي حاتم الرازي في تفسيره، 10/ 3276، الرقم/18473۔احمد بن حنبل، فضائل الصحابة، 2: 669، رقم: 1141۔
حضرت ابوالعالیہ التابعی، سعید بن جبیر، ابو اسحاق، عمرو بن شعیب، امام ترمذی، امام احمد بن حنبل، امام حاکم، امام بزار، امام طبرانی الغرض کتب احادیث اور کتب تفسیر میں کثرت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے)
حضرت زید بن ارقم ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں میرے بعد جب تک تم انہیں پکڑے رہو گے کبھی گمراہ نہ ہو گے ایک ان میں دوسری سے عظیم تر ہے۔ وہ ایک تو اللہ کی کتاب ہے اور اللہ تعالیٰ کی آسمان سے زمین کی طرف پھیلی ہوئی رسی ہے اور دوسری میری اولاد میرے گھر والے ہیں اور وہ الگ الگ نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر وہ میرے پاس آ پہنچیں گے پس تم لوگ سوچ لو کہ تم میرے بعد ان سے کیا معاملہ کرتے ہو اور کیسے پیش آتے ہو۔(اخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 181، الرقم : 21618، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 162.ترمذی)
تعجب کہ آپ ﷺ کی وصیت کے باوجود آپ ﷺ کے دنیاۓ فانی سے رخصت کے تقریباً 50سال کے اندر ہی امت نے آپ ﷺ کے خاندان کے محترم افراد کو تڑپا تڑپا کر قتل کیا۔
مدینہ کی ایک خاتون نے خواب میں دیکھا کہ ایک نقاب پوش خاتون ویران جگہ میں جھاڑو دے رہی ہیں،انہوں نے نقاب پوش خاتون سے پوچھا بی بی آپ اس ویران جگہ میں جھاڑو کیوں دے رہی ہیں؟
نقاب پوش خاتون نے جواب دیا کہ کل میرا بیٹا زخموں سے چور ہو کر،خون میں لپٹ کر یہاں گرے گا،ڈرتی ہوں اسے کنکریاں نہ چبھ جائے۔
مدینہ کی عورت نے کہا بی بی آپ کون ہے؟ آپ کا کیا نام ہے،نقاب پوش خاتون نے چہرے سے نقاب اٹھا کر کہا میں فاطمہ بنت محمد ہوں۔علی جدہ و علیہ السلام۔

فاطمہ کے لاڈلے کا آخری دیدار ہے
حشر کا ہنگامہ برپا ہے میان اہل بیت
سر شہیداں محبت کے ہیں نیزوں پر بلند
اور اونچی کی خدا نے قدر شان اہل بیت

حضرت سلمی (جو حضرت ابورافع ؓ کی زوجہ ہیں) بیان کرتی ہیں کہ (ایک دن) میں ام المؤمنین حضرت ام سلمہ ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئی کیا دیکھتی ہوں کہ وہ رو رہی ہے میں نے پوچھا کیوں رو رہی ہیں؟ انہوں نے جواب دیا! میں نے رسول کریم ﷺ کو دیکھا یعنی خواب میں اس حالت میں دیکھا کہ آپ ﷺ کا سر اور داڑھی گرد آلود ہے پھر جب میں نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ، آپ ﷺ گرد آلود کیوں ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا میں ابھی حسین کے قتل گاہ میں موجود تھا اور وہاں دیکھ رہا تھا کہ میرے جگر کے ٹکڑے کو ظالموں نے کس بے دردی کے ساتھ شہید کیا۔(سنن،ترمذي،ابواب المناقب۔صحیح۔ص 224)
اسی حالت میں زبان سے نکلا اہل عراق نے حسین کو قتل کیا، خدا ان کو قتل کرے اور حسین کو ذلیل کیا خدا ان لوگوں پر لعنت کرے(مسند احمد ج۔6 ص۔ 98)

جناب علی اکبر جنگ سے واپس آچکے ہیں،شروع میں تو یزیدی فوج کے بڑھوں نے اپنی تلواریں،نیزے اور ہتھیار یہ کہ کر جھکا دئے تھے کہ شمر حد ہو گئ ہم حسین سے لڑ سکتے ہیں،لیکن اپنے نبی سے جنگ نہیں کر سکتے۔شمر کہتا کربلا میں تمہیں نبی کہاں نظر آ رہے ہیں؟ جواب ملتاہے،وہ کیا،سامنے کھڑے ہیں۔شمر کہتا ہے دھوکہ ہو رہا ہے وہ نبی نہیں ہیں شبیہ‌ نبی ہیں،یہ حسین کے بڑے بیٹے علی اکبر ہیں۔
اکبر تھے پیغمبر کے مشابہ بالکل
آدھا سمجھے کہ صورت نبی آئ ہے
علی اکبر اپنے حق کے لۓ سب لٹانے کو تیار والد کے سامنے سینے میں نیزہ لے کر لیٹے ہیں،علی اکبر کہتے ہیں،بابا بڑی پیاس لگ رہی ہے،ذرا پانی پلا دیں۔حسین فرماتے ہیں، علی اکبر عرفان کی راہ میں صاحب تسنیم و کوثر سے پانی مانگ،چند ساعت بعد علی اکبر کہتے،بابا سکون مل گیا،بابا نانا بلا رہے ہیں،اور فرمارہے ہیں علی اکبر میرے بچے حسین کو تسلی دے اس کا پانی لۓ نبی شہادت کے بعد اس کا انتظار کر رہاہے۔علی اکبر کی روح پرواز کر جاتی ہے،امام بیٹے کے سینے سے دھنسا ہوا نیزہ نکالتے ہیں تو نیزے کے ساتھ بیٹا کا دل بھی نکل کر آ جاتا ہے،مشیت یزدی پوچھ رہی ہے،حسین ہے ہمت بیٹے کا خون سے لبریز دل دیکھنے کی؟
امام حسین جواب دیتے ہیں،نانا کی گود میں پلا ہوں اسلامی قوانین کا خون ہوتے نہیں دیکھ سکتا،ہاں اسلامی قوانین کی عظمت کو بچانے والے،اس پر نثار ہونے والوں کا خون دیکھ سکتا ہوں۔

آخر میں!
‏آج کے نوجوانوں کو چاہیے کہ قرآن مجید کی تلاوت ،سیرت النبی ﷺ کو بار بار پڑھیں،اہل بیت کے سیرت وکردار کو بار بار دیکھیں اور سمجھے،تاکہ اسلام کی اس انقلابی روح کو سمجھ سکیں جس کے ذریعے ہمارے اکابرین کامیابی و کامرانی سے ہم کنار ہو کر اقوام عالم کی ہر شۓ پر شاندار انداز سے قابض تھے۔سانحۂ کربلا کو لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کے تناظر میں سمجھناضروری ہے کہ ہمارا ”ایمان“ کیسے ہماری ”حقیقی آزادی“ کا ضامن ہےکیونکہ یہ خوف کی زنجیریں توڑنے کی قوّت و سکت فراہم کرتا اور ہمیں نفس کی غلامی سے آزاد کرتا ہے۔سب سے بڑھ کر یہ ہمیں ربّ العزّت کے سوا کسی کے بھی سامنے جھکنے کی بجائے اپنی جانوں کی قربانئ عظیم پیش کرنے کا حوصلہ دیتا ہے۔یہی وہ پیغام ہے جو کربلا،سیدنا حضرت امام حسین علیہ السّلام،ان کے اہلِ خانہ اور پیروکاروں کی عظیم قربانی سے ہمیں ملتا ہے۔

ریاض فردوسی۔9968012976

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے