مولانا محمد یحیٰ بھام

ازقلم: محمد ثناءالہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ


جنوبی افریقہ کے نامور عالم دین ، امیر خدمت العوام ، صدر لینیسیا مسلم اسکول، استاذ لینیسیا مسلم ایسوسی ایشن حضرت مولانا ابر ارلحق حقی رحمۃ اللہ علیہ کے دست گرفتہ ، اشرف المدارس اور جامع مسجد اشرفیہ کے بانی، بر صغیر ہند وپاک اور بنگلہ دیش کے علمائ، مدارس اور دینی اداروں کے قدر داں مولانا محمد یحیٰ بھام کا ۲؍ جمادی الثانی ۱۴۴۳ھ مطابق ۶؍ جنوری ۲۰۲۲ء کو طویل علالت کے بعد انتقال ہو گیا، ان کی رہائش جنوی افریقہ کے شہر لینیسیا میں تھی، اور وہیں دعوت وتذکیر اور بیعت وارشاد کا کام کرتے تھے، دس سال سے زیادہ عرصہ سے وہ کڈنی کے مریض تھے اور روزانہ ڈائی لاسس ہوتا تھا، اس کے باوجود ان کی قوت فکر وعمل میں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں تھی، جنونی افریقہ کے علماء میں انہیں امتیاز حاصل تھا۔
مولانا یحیٰ بھام کے آباؤاجداد اصلا گجرات کے رہنے والے تھے، انہوں نے نقل مکانی کرکے لینیسیا کو اپنا مستقر بنایا، مولانا کی پیدائش وہیں ہوئی، مولانا نے اپنی تعلیم ادارہ دعوۃ الحق ہردوئی اور جامعہ عربیہ ہتھورہ باندہ سے مکمل کی اور ان بزرگوں کی مجلس سے جو کچھ پایا تھا اسے افریقہ کے مسلمانوں میں بانٹنے کے لیے پوری زندگی وہیں قیام کیا، جمعیت علماء جنوبی افریقہ ٹرانزوال سے بھی ایک عرصہ تک وابستہ رہے۔
جب جمعیت علماء اٹرا نزوال نے ہندوستانی مدارس کے علماء کو شناخت نامہ دینا بند کر دیا تو انہوں نے جمعیت علماء کی اس فکر سے اختلاف کیا اور کئی بڑے علماء کے ساتھ انہوں نے بھی جمعیت سے علاحدگی اختیار کی اور سخت دباؤ کے باوجود علماء ومدارس کے لیے شناخت نامہ جاری کرنا شروع کیا اور پوری زندگی اس پر عامل رہے، بڑی مخالفت کے باوجود ان کے طرز عمل میں کوئی تبدیلی اورپائے ثبات میں کوئی لرزش نہیں آئی، وہ کہا کرتے تھے کہ میں مدارس کی چٹائی کا پروردہ ہوں، میں ان کے لیے کچھ نہیں کر سکتا تو دوسطر کی کوئی تحریر بھی نہیں دے سکتا، میں اتنا تو کرہی سکتا ہوں، میں اسے کرتا رہوں گا۔
مولانا کے اس طرز عمل سے ہندوستانی مدارس کے ذمہ داران اور علماء ان سے انتہائی قریب ہوتے چلے گیے اور کہنا چاہیے کہ ان کی حیثیت مرجع کی ہو گئی، جہاں علماء جا کر عافیت محسوس کرتے ان کے اخلاق سے متاثرہوکر ان کے گرویدہ ہو جاتے۔
جس زمانہ میں میری آمد ورفت جنوبی افریقہ تھی، سال میں کئی کئی ملاقاتیں ان سے ہو جاتیں، وہ امارت شرعیہ سے واقف تھے، اور اس کی خدمت کو محبت کی نگاہ سے دیکھتے تھے، امارت شرعیہ کے لیے جو کچھ ان سے ممکن تھا، کیا کرتے تھے، کم سے کم اتنا تو ضرور کرتے تھے کہ ہم کسی سے ملاقات کریں تو اس کے سامنے مجھے اپنا تعارف نہ کرانا پڑے۔
مولانا یحیٰ بھام نے جنوبی افریقہ میں دینی علوم کے فروغ اور دعوت وتبلیغ کے میدان میں بھی نمایاں خدمات انجام دیں، ان کی مسجد، مدرسہ اور خانقاہ بھی تھی اور انہوں نے جنوبی افریقہ جیسے ملک میں اسلامی شعار پر لوگوں کو باقی رکھنے کے لیے کامیاب جد وجہد کی، وہ وہاں کی دینی مجلسوں کی جان تھے، وہ ایک زمانہ تک ’’خدمت العوام‘‘ تنظیم کے امیر رہے، صدر لینیسیا مسلم اسکول کی حیثیت سے اسلامی ماحول میں بنیادی دینی تعلیم کے فروغ کے لیے کام کیا، ایک زمانہ تک لینیسیا مسلم ایسوسی ایشن میں استاذ کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں، اور کہنا چاہیے کہ پوری زندگی دعوت وتبلیغ ، تعلیم وتدریس کے ذریعہ بھٹکے ہوئے آہو کو سوئے حرم لانے کا کام کیا۔
لمبا قد، کھلتا رنگ ، چوڑی پیشانی ، گھنی ڈاڑھی، ابرو کشیدہ ، پنج گوشی ٹوپی کبھی کبھی سر پر عمامہ اس وضع قطع اور حلیہ میں مولانا انتہائی وجیہ نظر آتے ، چہرہ پر ایک رعب، ہونٹوں پر تبسم کی غیر مرئی لہریں ہوتیں جو دیکھتا دیکھتا ہی رہ جاتا، جب تک کوئی دور دور سے دیکھتا تو مرعوب رہتا، قریب ہوتا تو ان کی شفقت بے پایاں سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا، شرعی علوم اور بدلتے ہوئے حالات پر ان کی گہری نظر تھی، حکمت ومصلحت اور حق گوئی کے مدارج ان کے یہاں الگ الگ تھے، کسی بھی حال میں وہ ان کو خلط ملط نہیں ہونے دیتے، وہ موبائل کے بہت استعمال اور سوشل میڈیا سے بہت جڑے رہنے کے قائل نہیں تھے، لیکن علماء کے لیے بے خبری کو مضر سمجھتے تھے، چنانچہ مختلف ذرائع سے وہ دنیا کے احوال سے واقف رہتے، نجی مجلسوں میں جنچی تلی رائے دیتے، شیخ مجلس کی آراء بھی جاننا چاہتے، بات معقول ہوتی تو اپنی رائے بدلنے میں انہیں تامل نہیں ہوتا، ان کے چلنے پھرنے ، بولنے چالنے سب میں تواضع کا غلبہ ہوتا، ان کے اندر علم کی بڑائی کا خیال نہیں تھا، وہ قرآن کریم کی آیت وَفَوْقَ کَلُّ ذِیْ عِلْمٍ عَلِیْم کے قائل تھے، قرآن واحادیث کے علاوہ کسی اور چیز کو وہ آخر ی نہیں سمجھتے، علمائ، فقہاء کی آراء کی ان کے نزدیک بڑی قدر تھی، وہ فقہ حنفی پر عامل تھے، لیکن اس میں متشدد نہیں تھے، اس سلسلے میں جو علماء کی رائے ہے کہ امکان دوسری طرف بھی حق کا ہے، البتہ ہم جس پر عامل ہیں وہ مرجح ہے، وہ اختلاف رائے کو انتشار کا ذریعہ بنانے سے پوری زندگی گرازاں رہے۔
ایسی با فیض شخصیت کا جدا ہونا علمی اور دعوتی میدان کا بڑا خلا ہے، جسے مدتوں محسوس کیا جائے گا، خصوصا ہندوستانی مدارس کے لیے جنوبی افریقہ ان کی ذات شجر سایہ دار تھی، اس سایہ سے محرومی کے غم نے ان کی جدائی کے غم کو دوبالا کر دیا ہے۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ مولانا کی خدمات کو قبول فرمائے، ان کے سیئات سے در گذر کرے، اور جنت الفردوس میں جگہ عنایت فرمائے۔ ایں دعا از من واز جملہ جہاں آمین باد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے