حجاب کےخلاف ہندوتوا کے بڑھتے قدم

ملی قیادتیں کہاں ہیں؟ مذہبی ادارے کیوں خاموش ہیں؟

ازقلم: سمیع اللہ خان

کرسی ہے تمہارا جنازہ تو نہیں
کچھ کر نہیں سکتے تو اتر کیوں نہیں جاتے

ایک مہینے سے باپردہ مسلم لڑکیوں کےخلاف ہندوتوا کا ننگا ناچ چل رہاہے لیکن شرم آنی چاہیے کہ مسلم قیادت پردے سے باہر نہیں آسکی، امیرالہند صاحب سے لےکر پرسنل لا بورڈ کے صدر سبھی غائب ہیں، مسلمانوں لڑکیوں کےخلاف ایک مہینے سے حجاب کو لےکر تشدد چل رہا ہے، ایک مہینے سے، اب تک اس مسئلے پر کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔
آج کرناٹک کے ایک اور کالج میں مسلم بچیوں کے باحجاب ہونے کےخلاف بھاجپائی ہندوﺅں نے ہنگامہ کیا، ہندو لڑکیاں باقاعدہ ریلی نکال کر مسلم بچیوں کے حجاب پہننے کےخلاف احتجاج کررہی ہیں، سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ کیسا پاگل پن اور کیسی جہالت ہے، یعنی اب ہندوستان میں مسلمان لڑکیاں حجاب کیوں پہن رہی ہیں اس کےخلاف ہندو احتجاج کریں گے، مجھے ان ہندو لڑکیوں کے ماں باپ پر شرم آرہی ہے کہ کس ضمیر کےساتھ وہ اپنی اولادوں کو پڑھنے لکھنے کی عمر میں مسلمانوں کےخلاف نفرت پھیلانے کے لیے میدان میں اتار رہےہیں، اسلام دشمنی کا اس سے بڑا پاگل پن اس ملک نے کبھی نہیں دیکھا کہ اسکول میں پڑھنے والے بچوں کو ہندو۔مسلم کی کیٹیگری میں تقسیم کیا جارہاہے اور ہندو لڑکیوں سے مسلم لڑکیوں کے حجاب کے خلاف احتجاج کروایا جارہاہے، جنہیں ہنوز ان ہندوتوا لوگوں سے خوش فہمی ہےکہ وہ غلط فہمی کے شکار ہیں کم از کم اب تو انہیں آنکھیں کھولنی چاہیے، آخر کس طرح ہندو کمیونٹی اپنے بچوں کو مسلمان بچوں کےخلاف نفرت اور زہر پھیلانے کے لیے سڑکوں پر بھیج رہی ہے؟ اڈپی کے بعد کندا پورا اور آج ایک اور کالج میں حجاب کےخلاف ہندوتوا نے ہنگامہ کھڑا کیا، نفرت کی یہ آگ مسلسل پھیلتی جارہی ہے۔


ذرا سوچیے کہ، دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے والی ایک ریاست میں ۱ مہینے سے  مسلمان لڑکیاں کالج سے محض اس لیے برخاست کی گئی ہیں کہ وہ باحجاب ہیں، یہ خبر پوری دنیا میں پھیل چکی ہے، لیکن نہ تو کانسٹی ٹیوشن کے رکھوالوں کو برائے نام ہی شرم آئی نہ ہی حقِ آزادی اور سیکولرزم کی ضمانت و دہائی دینے والے اس سسٹم کا ضمیر جاگا،
دراصل آئین کا ہندوتوا کرن ہورہاہے اور ابھی اسلاموفوبیا کے ایسے چھوٹے چھوٹے واقعات کے ذریعے آنے والے دنوں میں برہمنی ہندوراشٹر کے ادارہ جاتی اسلاموفوبیا کو نارمل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، ماب لنچنگ کے ذریعے مسلمانوں کے قتل اور دھر سنسدوں کے ذریعے مسلمانوں کے قتل عام کے نعروں سے اجنبیت نکالنے کی طرح ڈالی گئی اور حجاب و نمازوں پر جابجا رکاوٹ کھڑی کرکے پریکٹیکل اسلام اور مسلم شعائر کو عوامی سطح پر منافرت کی شناخت دینے کی کوشش کی جارہی ہے، سیکولر ہندوﺅں سے اب کوئی گلہ نہیں انہوں نے اپنے چہروں سے نقاب اتار دیے ہیں، سوال یہ ہےکہ مسلمانوں کےخلاف اتنے دنوں سے جاری اس ہندوتوا طوفان کےخلاف مسلمان قیادتوں نے کیا کِیا؟

یاد رکھیں، حجاب کی لڑائی مسلمانوں کی اپنی شناخت کی لڑائی ہے، جب تک اس کے لیے مرکزي مسلم قیادتیں آگے نہیں آئیں گی کچھ نہیں ہوگا، بلکہ اسلامی خودداری یہ گوارا نہیں کرسکتی کہ ہماری بنیادی شناخت کے مسائل بھی ہم غیرمسلموں کے کاندھوں پر ڈال دیں کہ جب سیکولر لوگ تعاون کریں گے تبھی ہم آگے آئیں گے، یہ بڑی آخری درجے کی بےعزتی ہے۔
کیا آپ نہیں دیکھ رہےہیں کہ، مسلمان نام والے لبرل بھی مسلم بچیوں کو طعنے مار رہےہیں کہ بھلا تمہیں حجاب کےساتھ ہی تعلیم کیوں حاصل کرناہے؟ کتنے ہی مسلم نام والے سیکولر مادیت زدہ انٹلکچوئل سنگھیوں کےساتھ ملکر حجاب کی مخالفت کررہےہیں، انٹرنیشنل ڈسکورس میں حجاب کے تئیں اسلامی موقف پر کنفیوژن پھیل رہاہے، کیونکہ بھارت کا ایک بھی مذہبی مرکزی اسلامی ادارہ حجاب کی حمایت میں نہ تو بیان دے رہا ہے ناہی ان بچیوں کی حمایت میں احتجاج کررہاہے، سمجھ لیجیے کہ حجاب کا مسئلہ دین کی بنیادی تعلیم کا حصہ ہے، اس مسئلے پر علماء و مفتیان فقہاء و اسلامی اسکالرز کو بولنا ہوگا، مسلم بچیوں کے حقِ حجاب کے لیے دارالعلوم، جمعیۃ، بورڈ، سب کو ساتھ آنا ہوگا، مسلم خواتین کےخلاف ایک کالج سے شروع ہونے والی یہ نفرت کئی کالجوں تک پھیل گئی ہے، کیا آپ اس زہر کے کئی اور رياستوں میں پھیلنے کا انتظار کررہےہیں؟ ظالم تو یہی ناپ رہاہے کہ مسلم شعائر پر یلغار کے جواب میں ہندوتوا بھارت میں مسلمانوں کا ٹمپریچر کیا ہوگا ۔
اور ائے مریدین خدارا، یہ جھوٹ مت پھیلانے لگ جانا کہ ہمارے اعلٰی حضرت خاموشی سے کام کررہےہیں، اپنے حجروں کے اندر سے مراقبے بھیج رہےہیں اور زیرِ زمین سرنگیں کھود رہےہیں، ملت کے اجتماعی معاملات اور بنیادی حقوق پر جب ہندوتوا کی تلوار لہرا رہی ہے تب آپکا سامنے نظر آنا لازمی ہے، اگر آپ سامنے آتے تو مسئلہ اڈپی کے پہلے کالج میں ہی دفن ہوجاتا اس قدر پھیلتا نہیں، مسلم قیادت نے اتنے دنوں تک اس سنگین ایشو کو مین اسٹریم میڈیا اور فرقہ پرستوں کے ہاتھوں میں چھوڑے رکھا، پرسنل لا بورڈ تو مسلمانوں کی عائلی نمائندگی کا دعویٰ کرتاہے، دارالعلوم دیوبند اور دارالعلوم ندوۃ العلماء مذہبی مرکزی ادارے ہیں، جمعیۃ علماء ہند کےپاس ایک عدد امیرالہند بھی ہے، جابجا خانقاہیں اور جامعات کا جال ہے اور سبھی کا دعویٰ ہےکہ وہ اکابرین و اسلاف کے جانشین و پیروکار ہیں، ذرا اکابرین و اسلاف کی تاریخ کا آئینہ سامنے رکھ کر اپنا محاسبہ کیجیے، اگر ان کی موجودگی میں مسلم بچیوں کے حجاب چھینے جارہے ہوتے تو کیا وہ جماعتوں، تنظیموں، اداروں اور خانقاہوں کی مسندوں پر چین سے بیٹھے ہوتے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے