شہزادی اسلام کوبچپن سے باحیاء بنائیں

ابو معاویہ محمد معین الدین ندوی قاسمی
جامعہ نعمانیہ،ویکوٹہ ،آندھرا پردیش

انسانی فطرت ہے کہ وہ اپنے جسم کو چھپائے، اسی وجہ سے دنیا میں بسنے والے تمام ہی انسان اپنے جسم کو ڈھانپتے ہیں، اسی ڈھانپنے کے چیز کو لباس و پوشاک کہا جاتا ہے، مرد و زن دونوں کا ستر عورت کا حکم الگ ہے اس لئے ان کے لباس بھی الگ الگ ہوتے ہیں۔
موجودہ دور جسے جدید دور کہا جاتا ہے ہر آئے دن نت نئے ایجادات ہورہے ہیں، اس دور میں جہاں رہن سہن میں بدلاؤ آیا ہے وہیں لباس و پوشاک میں بھی چینجگ آئی ہے، اس وجہ سے طرح طرح کے لباس و پوشاک مارکٹ میں بھی آرہے ہیں، لوگ ذوق و شوق سے ہر طرح کا لباس خرید بھی رہے ہیں پہن بھی رہے ہیں اور پہنا بھی رہے ہیں، لیکن یاد رکھیں ظاہر کا اثر باطن پر پڑتا ہے۔
پہلے لوگ ساتر لباس پہنتے تھے تو ان میں حیاء اعلیٰ معیار کا ہوتا تھا، آج اس کے برعکس ہم مشاہدہ کررہے ہیں، آج مرد و زن کالباس یکساں نظر آنے لگا ہے، جس کی وجہ سے بسا اوقات بعض دھوکا بھی کھاجاتے ہیں کسی شاعر نے کیا ہی خوب کہا ہے:

لباس نو میں رکھی ہے رعایت ایسی ٹیلر نے
کہ ہیرا پھیری جنس کا معلوم ہوتا ہے
پتہ مشکل سے چلتا ہے مذکر اور مؤنث کا
کبھی معلوم ہوتا ہے کبھی معلوم ہوتی ہے

آج ہر طرف مسلم امہ لباس نو میں نظر آرہے ہیں، کیا مرد کیا عورت، پیر و جوان یہاں تک کہ نونہالان اسلام سب یکساں جدید لباس میں ملبوس نظر آتے ہیں، والدین مکرمین اپنے چھوٹے چھوٹے بچے اور بچیاں کو جنس ٹی شرٹ، فراک، لیگی پہناکر خوش ہو رہے ہیں، جہاں بعض مرد و زن معاشرہ کا لحاظ کرتے ہوئے خود جدید لباس و پوشاک نہیں پہن سکتے، لیکن دلی تمنا رکھتے ہیں، تو تکمیل خواہش کے لیے اپنے مستقبل کے شاہین بچے اور بچیوں کو جدید لباس پہناکر دلی خواہش کی تکمیل کرتے ہیں، بولنے ٹوکنے پر کہا جاتا ہے کہ یہ تو ابھی بچے اور بچیاں ہیں، اس کے پہنانے سے کوئی نقصان تو نہیں ہے، نیز ابھی چھوٹے ہیں بعد میں نہیں پہنیں گے۔
یہ کہنا کہ چھوٹے بچے بچیوں کو لباس نو پہنانے میں کوئی نقصان نہیں ہے یہ بہت بڑی بھول ہے، بلکہ اس لباس نو کے استعمال سے آپ ان نونہالان اسلام کے قلب و دل سے "حیاء” کھرچ کر نکال رہے ہیں، ان کی شرم و حیاء کی چادر کو نیلام کر رہے ہیں، ان کے مستقبل کو تابناکی کے بجائے تاریک کررہے ہیں، ان کے پاک دامنی کی چادر کو تار تار کر رہے ہیں۔
خدارا! ہوش کے ناخن لیں، اور اپنے پھول اور کلیوں جیسے بچے اور بچیوں سے حیاء نکالنے کے بجائے حیاء دار بنانے کی کوشش کریں اس سلسلے میں راقم الحروف کا خیال کچھ اس طرح ہے کہ اگر اس پر عمل کیا جائے تو ہمارے بچے اور بچیاں پاک دامن پاک طینت اور حیاء کا مجسمہ بنیں گے ان شاءاللہ
(1)جب بچے اور بچیاں قدم اٹھاکر چلنے لگے اسی وقت سے دونوں کے پہناوے الگ کردیں، یعنی بچے کو مردانہ اور بچیوں کو زنانہ لباس پہنائیں۔
(2)تین سال کے بچے کو پینٹ شرٹ، ٹی شرٹ وغیرہ پہناسکتے ہیں لیکن اسی کے ساتھ انہیں کرتا پاجامہ(جبہ شرعی) بھی پہنانا شروع کریں۔
(3)تین سال کے عمر کی بچیوں کو پینٹ شرٹ، ٹی شرٹ، فراک، جنس،لیگی اور دیگر چست کپڑے ہرگز نہ پہنائیں۔
(4)جب ان کو مذکورہ بالا کپڑے نہیں پہنائیں تو پھر کون سا لباس پہنائیں، تو ان کو قمیص شلوار پہنائیں، رنگ برنگ کے کپڑے مارکیٹ میں مل جائیں گے خرید کر قمیص شلوار سلاکر پہنائیں۔
ایسے کپڑوں کی قیمت کم اور فائدے زیادہ ثابت ہوں گے، اگر ان شقوں پر عمل ہونے لگے تو ہمارے بچے اور بچیاں حیاء دار ہوں گے۔ ان شاءاللہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے