وشاکھاپٹنم ایل جی پالیمارس کمپنی میں صنعتی سانحہ! ایک تجربہ

تحریر: محمد تفضل عالم مصباحی
یہ بات مسلم ہے کہ صنعتی فیکٹریاں کسی ملک کی معیشت کو فروغ دینے  ان کو   ترقی کے شاہراہوں پر گامزن کرنے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں. ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جہاں پر 13 دسمبر  1500ء کے بعد سے بہت ساری بیرونی ممالک کی  صنعتی فیکٹریاں قائم ہوتی آ رہی ہیں جو ہندوستان کی معاشی صورتحال کو بہتر بنانے اور روزگار کے مواقع فراہم کرنے میں عظیم الشان کردار ادا کرتا ہے گاہے بگاہے ان میں کسی قسم کا صنعتی سانحہ پیش آتا ہے جو باعثِ تفکر و تدبر ہے  اسی طرح 7 مئی 2020ء کو وشاکھاپٹنم ایل جی پالیمارس کمپنی سے زہریلی گیس کا لیک ہو کر تباہی مچانا باعث تشویش ہے۔
وشاکھاپٹنم آندھراپردیش کی سرزمین پر اس کمپنی کو 1961 ء میں ہندوستان پالیمارس کے نام سے شروع کیا گیا تب سے اس کمپنی میں پولسٹائلین، ربر اور پلاسٹک کے مختلف قسم کی اشیاء کو تیار کیا جانے لگا اور یہ کمپنی اس وقت شری رام کمپنی کا حصہ ہوا کرتا تھا. 1978ء میں اس کمپنی کا الحاق میکڈاؤل اینڈ کمپنی سے ہوا اس وقت یہ کمپنی نیوی کمپنی کا ہوا کرتا تھا سن 1997ء میں اس کمپنی کو دکھن کوریا کی ایل جی کیمیکل کمپنی نے خریدا جو اب تک اسی کا اٹوٹ حصہ ہے۔
لاک ڈاؤن کے تیسرے راؤنڈ میں مرکزی حکومت ہند نے گائیڈ لائن جاری کرتے ہوئے کہا کہ صنعتی کارخانے دوبارہ کھولا جائے تاکہ کرونا کی وجہ سے بگڑتی معاشی صورتحال پر کنٹرول کیا جا سکے اور دیہاری مزدروں کی معاشی بحران کو ختم کیا جاسکے ساتھ ہی ساتھ ضروری اشیاء کو وافر مقدار میں تیار کیا جا سکے۔
لاک ڈاؤن سے چھوٹ پاکر 7 /مئی 2020 ء کو ایل جی پالیمارس کمپنی کو کھول دیا گیا جس میں تقریباً 40/ ٹن اسٹائلین کا ذخیرہ موجود تھا کام شروع ہونے کے دوران تقریباً 1 بجے رات کو اس سے زہریلی گیس لیک ہوکر آس پاس کے علاقوں میں پھیلنے لگا جس سے لوگوں کے آنکھوں میں جلن، سانس لینے میں تکلیف اور پیٹ میں جلن ہونے لگا لوگ خوف و ہراس میں آکر گھروں کو چھوڑ کر سڑکوں کی طرف جان بچانے کے لئے بھاگنے لگے اور سڑکوں پر ہی لڑکھڑا کے  گر کر دم توڑنے لگے. زہریلی گیس کی وجہ سے تقریباً درجنوں لوگ جان بحق ہو چکے ہیں اور تقریباً 300/ سے زائد لوگ اس زہریلی گیس کے چپیٹ میں آ کر ہوسپیٹالائز ہو گئے ہیں اور  ابھی تک یہ سلسلہ جاری ہے۔
کمپنی کے معاونین سے چوک ہوئی یا  ان کی لا پرواہی تھی یہ چانچ کا معاملہ ہے کمپنی کے اعلی ذمہ داران نے چانچ کی ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جو اس کے لیک ہونے کی وجوہات سے لے کر اس کے خطرناک اثرات کی چانچ کرے گی اور چانچ سے ہی اس کی حقیقت سامنے آئے گی اور جواب دہی طے کی جائے گی۔
 لوگوں کا کہنا ہے کہ وشاکھاپٹنم آندھراپردیش گیس لیک کے سنگین مناظر نے بھوپال کے  گیس  لیک کے سانحہ کو یاد دلا دیا  جو دنیا کی بدترین صنعتی تباہی 2 دسمبر ، 1984 کی درمیانی رات کو  یونین کاربائڈ انڈیا لمیٹڈ پلانٹ سے میتھل آئسوکانیٹ گیس کے  لیک ہونے کی وجہ سے ہوئی اس سے کم از کم 3،787  سے زیادہ لوگ مرے تھے اور بے شمار لوگ اس میں گھائل ہوئے تھے اور اس کے مہلک اثرات آج بھی نو مولود نسل کو تباہی کے دہانے پر پہنچا رہی ہے۔
 وشاکھاپٹنم آندھراپردیش  ایل جی پالیمارس کمپنی کے گیس سے کینسر اور ڈپریشن جیسی بیماری کے بڑھنے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے پھر بھی ہم امید کرتے ہیں کہ یہ  صنعتی سانحہ بھوپال جیسا مہلک اور جان لیوا نہ ہو اور اس کے اثرات دیر پا نہ ہو مرکزی حکومت این ڈی آر ایف کی ایک خصوصی سی بی آر این (کیمیائی ، حیاتیاتی ، ریڈیولاجیکل اور ایٹمی) ٹیم میں پونے سے وشاکھاپٹنم بھیج دی ہے دیکھتے ہیں کہ اس کی صورتحال کیا پیش آتی ہے ۔
ایمس کے ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ اسٹیمین گیس کے اخراج کی وجہ سے طویل مدتی اثرات کے امکانات کم ہیں۔
ایمس کے ڈائریکٹر ڈاکٹر رندیپ گلیریا نے کہا کہ اسٹاکن بخارات سے وابستہ ہونے کی وجہ سے طویل مدتی صحت کے اثرات کے امکانات جو وشاکھاپٹنم کے ایک کیمیکل پلانٹ سے خارج ہوئے ہیں ، کم ہیں اور گیس کی وجہ سے ہونے والی بیماریاں عالمی سطح پر مہلک نہیں ہیں۔
  مرکزی اور ریاستی حکومت اپنی طرف سے مہلوکین معاوضہ دینے کا اعلان کر دیا ہے پھر ہم دونوں حکومتوں سے گزارش ہے کہ  بھوپال کے حادثے میں جس طرح سیاسی لیڈروں نے گندی سیاست کی تھی ہے ویسا اس حادثے میں نہ ہو سیاسی چقلس چھوڑ کر مہلوکین کے فیملی کی امداد کریں اور جو ہوسپیٹل میں زیر علاج ہیں ان کی درست علاج کریں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے