تعلیم سکھاتی ہے جینے کا سلیقہ

تحریر: محمد دلشاد قاسمی

ابھی بھولا نہیں میں اپنی ان پڑھ ماں کا وہ جملہ

بیٹا علم کی دولت میری سانسوں سے پیاری ہے

تعلیم ہرزمانے میں پیش آنے والے مشکلات سے نمٹنے کیلئے معاون بنتی ہے ۔ جب بھی اور جس عہد میں بھی کوئی چیلنجز آتاہے تو تعلیم اس کا مقابلہ کرنے کی ہمت اور جرأت عطا کرتی ہے ۔ تعلیم بنیادی طور پر صلاحیت اور قابلیت پیدا کرتی ہے ۔ تعلیم سے آراستہ ہونے کے بعد انسانی ذہن و دماغ میں وسعت اور کشادگی پیدا ہوتی ہے ۔ اسی کے بعد ریاست ،سماج اور معاشرہ کی ترقی ممکن ہوپاتی ہے ۔ علم نئے امکانات کیلئے دروازے کھولتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے سبھی مذاہب میں حصول علم کو بے پناہ اہمیت حاصل ہے ۔ تعلیم کی اسی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمارے ملک کے دستور اور قانون میں چار سال سے پندرہ سال تک کے سبھی بچوں کےلئے تعلیم کو ضروری قرار دیا ہے۔
تعلیم، معاشرے میں شعور اُجاگر کرنے اور بچوں کی اچھی تربیت میں بھی معاون ہوتی ہے۔ کسی بھی ملک کی ترقی کا اندازہ اس کی شرح خواندگی سے لگایا جاسکتا ہے۔ انسان اور حیوان میں فرق تعلیم ہی کی بدولت ہے ۔
انسان کے انسان ہونے کی سب سے پہلی وجہ تعلیم ہے دنیا میں جب بھی آپ علم والے لوگ دیکھیں گے تو یہ زیادہ Confident ہونگے یہ humble بھی ہونگے ان کے پاس wisdom ہونگا ان کا ایک وژن ہوگا یہ اپنے علم سے نیا علم پیدا کر سکیں گے یہ ریسرچ کر سکیں گے علم والوں کو کبھی آپ struck نہیں دیکھو گے وہ راستہ بنالیتے ہیں یہ دنیا میں جتنی چیزیں invent ہوئی ہے light ہے انٹرنیٹ ہے موٹر گاڑی ہے ہوائی جہاز ہے انجن ہے یہ سب علم والوں کی مہربانی ہے یہ دنیا کی جتنی بھی چیزیں بن کے ہمارے سامنے پڑی ہے یہ سب ہمارے لئے ایک بڑا challenge تھیں رات ہوتی تھی گپ اندھیرا چھا جاتا تھا ایک addition تھا جس نے 9999 کوشش کرنے کے بعد ایک بلب بنا کر دے دیا یہ دنیا کے اندھیروں کے آگے ایک بلب ٹمٹماتا ہیں اور اعلان کرتا ہے کہ مجھے ایڈیسن نے بنایا تھا یہ علم والوں کی بات ہے جب بھی علم بڑھنا شروع ہو جائے گا تو آپ دوسروں سے نمایاں اور extra ordinary ہوجائے گے۔
انسانوں کو غلامی کی زنجیر میں جکڑ نے کی بنیادی وجہ علم سے محرومی ہوتی ہے جب انسان تعلیم یافتہ ہوتاہے تو وہ اپنے بارے میں ، اپنے مستقبل کے بارے میں ۔ اِر گرد کے حالات کے بارے میں سوچتاہے ۔ آزادانہ فیصلہ لیتا ہے ۔ اپنی زندگی پر سب سے پہلے اپنا حق سمجھتا ہے اور کسی بھی انسان میں آزادی کی یہ صفت علم کے بعد ہی پیدا ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ ہمیشہ دنیا بھر میں غلاموں کو علم حاصل کرنے سے روکا گیا۔ انہیں علم سے محروم کیا گیا اور جس کسی نے بھی علم حاصل کرلیا اس نے اپنی غلامی کے خلاف آواز بلند کی ۔ انسانی پامالی کے خلاف تحریک چلائی اور اپنے علم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے معاشرہ میں آزادی حاصل کرنے کی کوشش کی۔
تعلیم کی بدولت ہی آگ کی پرستش کرنے والوں نے ان کو اپنے قابو میں لے لیا تعلیم کے میدان کے سپاہی جب جابر بن حیان البیرونی بنتے ہیں تو پھر اپنی زندگیاں بنا کر جینے کا سلیقہ سکھاتے ہیں تعلیم کے میدان کے سپاہی جب نیوٹن گراہم بل بنتے ہیں تو دوسروں کے کام آ کر جینے کا سلیقہ سکھاتے ہیں تعلیم کے میدان کے سپاہی جب سیاست میں اترتے ہیں تو ابراہم لنکن نیشنل منڈیلا بن کر قوم کو جینے کا سلیقہ سکھاتے ہیں تعلیم کے میدان کے سپاہی جب رہنما بنتے ہیں تو سر سید ابو الکلام آزاد بن کر قوم کی رہنمائی کر کے جینے کا سلیقہ سکھاتے ہیں تعلیم کے میدان کے سپاہی جب کچھ کرنے کی ٹھان لیتے ہیں تو پوری دنیا کو اپنی انگلی پر نچا کر Steve jobs کی صورت میں جینے کا نیا ڈھنگ سکھاتے ہیں تعلیم کے میدان کے سپاہی ہیں جب معیشت دان بنتے ہیں تو Jonathan Lebanon کی صورت میں افریقی باشندوں کی زندگیاں سنوار کر جینے کا سلیقہ سکھاتے ہیں ۔
لیکن آج کل تعلیم کے نام پر بچوں کو کتابوں سے بھرےوزنی بیگ تھما دیے جاتے ہیں جس سے ایک طرف وہ جسمانی تھکاوٹ کا شکار ہوتے ہیں تو دوسری طرف ذہنی تھکاوٹ کا بھی اب ہمارا تعلیمی سسٹم بچوں کی تعلیمی تربیت پر غور کرنے کی بجائے صرف رٹے رٹائے جملوں کی تعلیم پر زور دیتا ہے جو بچوں کے لئے ذہنی اور جسمانی طور پر نقصان دہ ہیں اس لیے اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہمیں رٹا (remembering) سسٹم سے نجات حاصل کرنی ہے اور ایسا تعلیمی نظام رائج کرنے کی کوشش کرنی ہے جو نہ صرف طلباء کو حقیقی تعلیم و تربیت سے روشناس کرے بلکہ انہیں موجودہ دور سے بھی ہم آہنگ کرنے میں مددگار ہو ۔
تعلیم کیا ہوتی ہے ؟ اس کو ہر زمانے میں define کیا گیا اور آج بھی یہ کوشش کی جا رہی ہے لیکن یاد رکھیے تین چیزیں ہمیشہ تعلیم کے سلسلے میں similar رہی ہے وہ چاہے دنیاوی تعلیم ہو یا دینی تعلیم ہو آج کی ماڈرن ریسرچ یہ کہتی ہے کہ وہ تین چیزیں اگر تعلیم میں موجود ہے وہ تعلیم تعلیم ہے ورنہ وہ تعلیم نہیں ہے ۔
وہ تین چیزیں تین , C, C, C ہیں تعلیم چاہے اسکول میں دی جا رہی ہے کالج میں دی جا رہی ہے یونیورسٹی میں دی جا رہی ہے اگر Thiri C C C اس کے نتیجے میں بچوں میں پیدا ہو رہی ہے تو وہ تعلیم ہے۔
تعلیم ایسا عمل ہے جس کے نتیجے میں بچوں میں پہلا C پیدا ہو جاتا ہے اور اس کا نام ہے confidence اگر تعلیم حاصل کرنے کے بعد انسان کا confidence لیول نہیں بڑھ رہا ہے ہے تو یہ تعلیم نہیں ہے۔ آج تعلیم کو ماپنے کا معیار ڈگری ہے میں نے بڑے بڑے ڈگری والے لوگوں کے کے اندر جاہل دیکھا ہے کیونکہ اعتماد ہی کوئی نہیں confidence بالکل نہیں ذرا ذرا سے معاملات میں پیر ڈگمگا جاتے ہیں چھوٹے چھوٹے فیصلے نہیں کر پاتے تھے۔
دوسرا C یعنی تعلیم آپ کو creative نہیں بناتی , creative کہتے ہیں خود سے سوچنے والا سوچ کو پتلا کرنے والا نہیں فکر دینا دنیا میں جتنے inventions ہوئے ہیں موبائل، کیمرہ، ٹیکنالوجی وغیرہ یہ سب دوسرے , C یعنی creative لوگوں نے ہی ای جاد کئے ہیں۔
تیسرا C اگر تعلیم کیریکٹر پیدا نہیں کر رہی تو تعلیم تعلیم نہیں ہے اگر پڑھے لکھنے کے بعد کوئی ایماندار نہیں ہوا وقت کا پابند نہیں قربانی دینے کا شعور اس کے اندر بیدار نہیں ہوا اجتماعی مفاد کے لیے اپنے انفرادی مفاد کو قربان کر دینے کا حوصلہ اس میں بیدار نہیں ہوا تو یہ عالم نہیں ہے تو تیسرا C ہے کہ تعلیم سے انسان کا کیریکٹر develop ہوتا ہے لیکن افسوس کی بات ہے آج کی تعلیم نے tolerance کو بڑا یا نہیں ہے بلکہ کم کردیا ہے اور ego کو بڑھا دیا ہے جو جتنا زیادہ پڑھا لکھا ہے اس کے اندر انا اتنی ہی زیادہ پائی جاتی ہے فرض کریں آپ سڑک پے جا رہے ہیں اور ایک رکشے والا آکر ایک عام آدمی کی کار کو ٹکر لگا دے تو اس کا جواب اتنا سخت نہیں ہوگا جتنا کے ایک سپریم کورٹ کا وکیل یا ایک بڑے ہوسپٹل کا ایم بی بی ایس ڈاکٹر جا رہا ہوں اور ایک رکشے والا اسے ٹکر مار دے ان کا جواب سخت ہوگا آج کل تو مثال مشہور ہے نا کہ تم مجھے جانتے نہیں ہو میں کون ہوں میں یہ کر دوں گا وہ کر دوں گا۔جبکہ تعلیم کا بنیادی مقصد تھا کہ انسان کا کریکٹر develop ہوجائے لیکن یہاں تعلیم نے کیریکٹر کو بلند نہیں کیا بلکہ پست کر دیا ہے ۔
دوسری بات اب تعلیم کا مقصد صرف کارپوریٹ کمپنیوں میں کام کرنے کے لئے ٹریننگ کی حد تک محدود ہے ۔ آج تعلیم ایک طرح کی سرمایہ کاری ہے جس سے نفع کمانا ہے، ایک تجارت ہے، جس میں داخل ہونے والا روز اول سے ہی ان حسابات کے ساتھ داخل ہوتا ہے کہ اسے ڈگری پر کتنا خرچ کرنا ہوگا اور نتیجتا اس کے بعد اسے کتنا منافع حاصل ہو گا یونیورسٹی کے سامنے کسی کورس کے تعلق سے فیصلہ کرتے ہوئے واحد کسوٹی یہ ہے کہ بازار میں اس کورس کی کتنی مانگ ہے چنانچہ ہماری تعلیم قومی ضرورتوں یا قوم کی امنگوں کی بنیاد پر نہیں ہورہی ہے بلکہ بیرونی ملک ملٹی نیشنل کمپنیوں کے تقاضے اور اس کی بنیاد پر ہو رہی ہے آج کا نظام تعلیم ہمارے نوجوانوں میں حرص ہوس اور استحصال پر مبنی سرمایہ دارانہ ذہنیت پیدا خدا کر رہا ہے یہ ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے ۔
تعلیم کے عام طور پر جو فوائد بیان کیے جاتے ہیں وہ یہ ہے کہ اس سے آدمی باشعور بنتا ہے، مہذب بنتا ہے، سوال کرنے اور غلط رجحانات کو چیلنج کرنے کی صلاحیت اس کے اندر پیدا ہوتی ہے وغیرہ وغیرہ اب آپ ایک ایسے پوسٹ گریجویٹ انجینئر کا تصور کیجیے جو اپنے پیشے سے متعلق کتابوں اور اخبارات کے سوا کچھ نہیں پڑھتا کیا وہ پڑھا لکھا کہلانے کا حقدار ہے ؟ بے شک وہ اپنے فن میں ویسا ہی ماہر ہے جیسے ایک ان پڑھ بڑھی اور اور کار مکینک اپنے فن میں ماہر ہے کیا سماجی شعور کے حوالے سے سے دونوں میں کوئی فرق ہے؟ پڑھا لکھا ہونا صرف پڑھنے لکھنے کی لیاقت کا حامل ہونا نہیں ہے ۔
نظام تعلیم کے ذریعے اپنی پسند کے افراد ڈھالنے کا یہ مکروہ عمل برطانوی ماہر تعلیم لارڈ میکالے نے شروع کیا تھا اور، skilled labour کی فوج کی تخلیق کا بیڑا اٹھایا تھا تاکہ وہ انگریزوں کے دیے ہوئے پیمانوں، طریقوں اور معیارات کے تحت سر جھکا کر اپنے اپنے شعبوں میں یکسوئی اور فرمانبرداری کے ساتھ انگریزوں کا حق نمک ادا کرتے رہیں ان کی کسی چیز کو چیلنج نہ کریں ان کی جانب سے آنے والی ہر بات کو وحی الہی سمجھے اور اپنے شعبوں کے علاوہ دیگر معاملات سے سروکار نہ رکھے ۔
ایک امریکی دانشور نے بہت صحیح کہا ہے کہ :

Those who read only about their subject are like lifeless machines, that can perform only one task. In the matters of higher wisdom, they are not better than illiterates.


ایک انجینئر اور ان پڑھ آدمی میں کوئی فرق نہیں ہوتا یہ کیفیت ہم آسانی سے پڑھے لکھے پروفیشنلز کے ساتھ بات کرتے ہوئے محسوس کرسکتے ہیں وہ بہت کامیاب ہے لیکن کسی سنجیدہ موضوع پر پانچ منٹ بات نہیں کر سکتے اونچی اور گہری باتیں ان کو سمجھانا بھی اتنا ہی مشکل ہے جتنا کسی ان پڑھ دیہاتی کو اس کی وجہ یہ ہے کہ عالمی سامراج کو صرف skilled labour کی ضرورت ہے تعلیم یافتہ اور باشعور شہریوں کی نہیں۔
تعلیم کے میدان میں ہماری پہلی تعلیمی ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ ہمارا بچہ یہ جان لیں کہ زندگی کا مقصد کیا ہے؟ حیرت ہے اگر کسی فرد کو یہ معلوم نہ ہو کہ پیڑ کے اندر سبز پتوں کا مقصد کیا ہے؟ وہ ہمیں آکسیجن فراہم کرتے ہیں اور کاربن ڈائی آکسائیڈ جیسی زہریلی گیس کو اپنے اندر لیتے ہیں تو وہ جاھل سمجھا جاتا ہے لیکن اس سے کہی زیادہ جاھل وہ شخص ہے کہ جو بے جان اشیاء کے عضو اور ہر عمل کے مقصد سے واقف ہوں لیکن اسے یہ معلوم نہ ہو کہ وہ خود کس لئے پیدا ہوا ہے اور زندگی میں اس کا مقصد کیا ہے ؟ ایسے ہی ایک بایلوجی کا اسٹوڈنٹ انسان کی پوری باڈی سے بحث کرتا ہے کہ دل کیسے کام کرتا ہے؟ گردے کیسے کام کرتے ہیں؟ دماغ کیسے کام کرتا ہے ؟ اور انسان کی بوڈی کا پورا سسٹم کیسے چلتا ہے لیکن اس کو یہ معلوم نہ ہو کہ یہ بوڈی کا سسٹم چلاتا کون ہے تو کتنی عجیب بات ہے، تو یہ تعلیم کی کمی ہے ۔
لیکن آخر میں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ تعلیم آج بھی ہماری اصل ترجیح نہیں اس کی اہمیت جتنی زیادہ ہے ہم اتنے ہی بے حس ہیں۔

رہی تعلیم مشرق میں نہ مغرب میں رہی غیرت

یہ جتنے پڑھتے جاتے ہیں جہالت بڑھتی جاتی ہے