تحریر: محمدقاسم ٹانڈوی
جس وقت یہ سطریں قلم بند کی جا رہی تھیں، اس وقت تک یوپی میں ہوئے اسمبلی انتخاب کے نتائج سے ریاست کا سیاسی مطلع بہت حد تک صاف ہو چکا تھا اور یہ بھی تقریبا طے ہو چکا تھا کہ حکمرانی کا تاج برسر اقتدار پارٹی کے ہی سر پر برقرار رہےگا۔ کیونکہ ابتدائی رجحانات میں جس پارٹی کو بڑھت حاصل ہو جاتی ہے، اور وہ بڑھت بھی غیرمتوازی شکل میں چل رہی ہو تو دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ نتائج آخرکار اسی پارٹی کے حق میں زیادہ ثابت ہوتے ہیں۔
خیر مہینے بھر چلنے والی الیکشن کی کارروائی اب اپنے انجام کو پہنچنا چاہتی ہے اور وہ اس طور پر کہ موجودہ حکومت ہی ریاست کی باگ دوڑ سنبھالے رہےگی اور اگلے پانچ سال اقتدار کی کرسی پر براجمان ہوگی۔
یہاں قابل غور و فکر بات یہ ہے کہ الیکشن شروع ہونے سے پہلے بھی اور دوران الیکشن بھی ریاست کا ماحول پوری طرح حکومت مخالف نظر آتا تھا، گاؤں دیہات سے لےکر شہروں تک حکومت مخالف لہر نظر آتی تھی، سروے اور جائزہ لینے والی ٹیموں کی طرف جو گراؤنڈ رپورٹس ٹی وی چینلز پر دکھائی جا رہی تھیں اور عوامی سطح پر تیار کی جانے والی تمام خبریں اقتدار کی تبدیلی اور ریاست کو نئی حکومت دیتے نظر آتے تھے، یہاں تک کہ الگ الگ تاریخوں میں حلقے وار جو ووٹنگ ہوتی تھی، اس میں بھی حکمراں جماعت کو حاصل ہونے والی رائے دہی کا فیصد بھی کم نظر آتا تھا بمقابلہ اپوزیشن کے؛ مگر پتہ نہیں اچانک کیا ہوا کہ آخری مرحلے کی رائے دہی کے بعد ٹی وی چینلز پر جو سروے اور جائزے پیش کیے جا رہے تھے، ان سب میں حکمراں جماعت ہی کے سر تاج رکھا جا رہا تھا اور یہ سروے اس وقت صحیح ثابت ہوئے، جب کل ووٹ شماری میں ابتداء ہی سے موجودہ ریاستی حکومت مسلسل سبقت بنائے نظر آتی رہی اور تادم تحریر اس بڑھت اور سبقت کا پیمانہ تین سو سے زائد کو پار کر چکا تھا، جس کو دیکھ کر یقینی طور پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ: حکومت نے جو نعرہ دیا تھا "اب کی بار تین سو پار” وہ اس نے سچ کر دکھایا اور پہلے سے بھی کہیں زیادہ مضبوط اور واضح اکثریت کے ساتھ اسے حکومت سازی کرنے کا موقع مل رہا ہے۔
بہر حال! الیکشن کے خد و خال اور کامیاب و ناکام ہونے پر تو بعد میں غور و فکر ہوگا اور کس سے کہاں چوک ہوئی، کونسی حکمت عملی کے اختیار کرنے پر نتائج برعکس ہو سکتے تھے اور کس کے ساتھ گلے ملنے کو اپنے حق میں مفید و معاون بنایا جاسکتا تھا؟ ان سب امور پر تو اب ہفتوں بحث ہوتی رہےگی؛ ہمیں تو یہاں سردست حکومت کی توجہ اس جانب مبذول کرانا مقصود ہے کہ آپ نے الیکشن لڑا اور بہت اعلی و نمایاں کارکردگی کے ساتھ کامیابی حاصل کی ہے، پہلے تو یہ کامیابی آپ کو بہت بہت مبارک ہو۔ دوسرے ریاست ہو یا مرکز و مملکت؛ یہ مشترکہ طور پر عوام کے مسائل حل کرانے کےلئے ہوتے ہیں اور یہاں سے ہر کسی کو اپنے حقوق و مراعات ملنے کی قوی امید ہوتی ہے۔ عوام کا خیال یہی ہوتا ہے کہ یہاں بیٹھنے والا ہمارا ہمدرد و خیرخواہ اور ہماری ریاست کو بہتری کی طرف لے جانے والا اصلی نمائندہ ہے؛ خواہ وہ کسی بھی مذہب و ملت سے تعلق و عقیدہ رکھنے والا کیوں نہ ہو؟ ہر کسی کو بہتری اور خوشحالی کی امید اور اعلی منصب پر فائز اپنے اس نمائندہ پر کافی بھروسہ ہوتا ہے۔ لیکن آپ کی حکومت میں عوام کے اس خیال و امید کو دھچکا لگا ہے اور انھیں کئی مرتبہ مایوسی ہاتھ لگی تھی۔ شاید آپ کو یاد ہو کہ آپ کی سرکار کی گذشتہ کارروائی میں کئی مقامات پر یکطرفہ اور مذہب کی بنیاد پر ایسے فیصلے لئے گئے ، جہاں ریاست کے عوام بہت حد تک آپ سے نالاں و شکوہ کناں رہے۔ آپ کے اس رویہ پر سماجی خدمت گذار نیز عوام سے جڑے اداروں اور تنظیموں سے وابستہ افراد آپ کی توجہ اس جانب مبذول بھی کراتے رہے، مگر آپ چونکہ اپنے فیصلوں میں خود مختار اور حکومت میں مضبوط پوزیشن رکھتے تھے؛ اس لئے انھیں توجہ دلانے کا کوئی خاطر خواہ فائدہ حاصل نہیں ہوتا تھا۔ کئی مرتبہ مذہب کی بنیاد پر بھی تفریق برتی گئی اور ایک خاص طبقے کو نظر میں رکھ کر آگے کی کارروائی طے کی جاتی تھی، لیکن وہ سب باتیں اب پرانی ہو چکی ہیں، انھیں دہراکر کوئی فائدہ نہیں، اس لئے اب تو آئندہ کی حکمت عملی پیش نظر رہنی چاہئے۔
چنانچہ ہمیں امید ہے کہ آپ اپنی اس کامیابی پر ریاستی عوام کے مشترکہ شکر گزار ہوں گے اور بلاتفریق مذہب و ملت ریاستی عوام کے تئیں اسکیموں کا نفاذ کریں گے، برادری اور مذہب کو بنیاد بنائے بغیر ہر ایک کے ساتھ منصفانہ برتاؤ اور ریاست کو خوشحالی و ترقی کی طرف لے جانے والے نہ صرف یکساں طور پر اقدام کریں گے، بلکہ حالیہ انتخابات کے آخری دور میں آپ نے جو بیان دیا تھا کہ: "میں مسلمانوں سے پیار کرتا ہوں اور مسلمان مجھ سے پیار کرتے ہیں” اپنے اس بیان کو سچ اور حقیقت کر دکھائیں گے اور ملک و ریاست میں جو نفرت و تشدد کا ماحول اور مذہبی شدت پسند تیزی کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے، اس کو ختم کرنے کی کوششیں اور محنت کریں گے۔ اس لئے کہ شدت پسندی سے نہ کل کسی کا بھلا ہوا ہے اور نہ آئندہ یہ کسی کو نفع پہنچا سکتی ہے، سوائے خون خرابے اور مذہب کی بدنامی کے اس سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں۔ آپ کی شخصیت تو ویسے بھی ایک مذہبی اور سنیاسی کی حیثیت سے مشہور و معروف ہے۔ اس لئے ہر قسم کی تعصب اور شدت پسندی سے ریاست کو پاک کرنا آپ کی ذمہ داری ہے۔ ہمیں امید ہے کہ ان معروضات پر دھیان دیا جائےگا اور تمام طبقات کے ساتھ یکساں و مساویانہ سلوک برتا جائےگا۔ آخر میں ایک مرتبہ پھر ہم نیک خواہشات پیش کرتے ہیں اور آپ کے ساتھ اپنی ریاست کی خوشحالی و ترقی اور عوام کی سلامتی کی دعا کرتے ہیں۔
(بہت بہت مبارک ہو آپ کو یہ دوسری جیت)