تحریر: سمیع اللہ خان
نریندرمودی اور امیت شاہ کی تالیوں کی گڑگڑاہٹ کے درمیان کانگریس کے سَنگھی لیڈر غلام نبی آزاد کو پدم بھوشن ایوارڈ سے نوازا گیا ہے، غلام نبی آزاد کو اب چاہیے کہ وہ اپنے نام سے لفظ آزاد اور نبی کو نکال دیں کیونکہ وہ اب ہر طرح سے غلامی کے معنی پر ہی پورے اترتے ہیں
غلام نبی آزاد نے کانگریس میں رہتے ہوئے ہمیشہ سَنگھ کے لیے کام کیا ہے،
دراصل غلام نبی آزاد جیسے لیڈروں نے ہی بھارت میں آر ایس ایس جیسے زہریلے سانپ کو پالا پوسا ہے، گزشتہ دنوں جب ہندوستان کے سابق وزیرخارجہ سلمان خورشید نے اپنی کتاب میں آر ایس ایس اور ہندوتوا کو داعش سے تشبیہ دی تو غلام نبی آزاد ہی میدان میں اتر کر ہندوتوا کا دفاع کررہےتھے، علاوہ ازیں وہ مودی نوازی کی بھی ہر ممکن کوشش کرچکے ہیں،
کمیونسٹ شخصیات غلام نبی آزاد سے زیادہ باحمیت اور باضمیر نکلیں جنہوں نے موجودہ سَنگھی استعمار کے ہاتھوں ایوارڈ قبول کرنے سے انکار کردیا، البتہ آزاد نے غلامی کا ثبوت پیش کیا ۔
مودی سرکار کے عہد میں کسی کو ایوارڈ دیا جارہا ہو یا مودی کے ذریعے کسی کی تعریف ہورہی ہو تو آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ وہ انسان کس قدر کرپٹ اور سَنگھی ایجنڈوں کا وفادار ہوگا، جس طرح پارلیمنٹ میں نریندرمودی نے غلام نبی آزاد کی قصیدہ خوانی کی تھی اس سے اکثر لوگوں کو سمجھ آگیا تھا کہ غلام نبی آزاد اندر سے خاکی چڈی زیب تن کیے ہوئے ہیں، جب ہم نے پہلے اس جانب متوجہ کیا تھا تو بعض انٹلکچوئل دانشوروں نے غلام کے سیاسی کیرئیر کے احترام اور خدمات کے اعتراف کی تلقين کی تھی، مجھے امید ہےکہ ان کی بھی آنکھیں کھلیں گی۔
غلام نبی آزاد نے آج تک مظلوم کشمیریوں کے لیے بھی کچھ نہیں کیا بلکہ کشمیری مسلمانوں کے لیے وہ انتہائی بےحِس ثابت ہوئے، اور جب وہ کانگریس کے عہد میں اقتدار کی ملائی کھاتے تھے تب وہ اندر سے اُسی کانگریسی اقتدار کےذریعے آر ایس ایس کو فائدہ پہنچایا کرتےتھے جب نریندرمودی گجرات کے بدنامِ زمانہ وزیراعلیٰ تھے تب بھی غلام کی مودی سے آزادانہ بنتی تھی، اب جبکہ سَنگھ اقتدار میں آچکا ہے اور مودی وزیراعظم ہے تو کانگریس میں چھپے ہوئے آر ایس ایس کے، غلام نبی آزاد جیسے نیتا اپوزیشن کو بھی کم زور کرنے اور توڑنے میں لگے ہوئے ہیں کیونکہ مضبوط اپوزیشن سَنگھ کے لیے خطرہ ہے، ہندوتوا آئیڈیالوجی کے دفاع میں اتر کر غلام نے اپنی غلامی کا مکمل طوق واضح کردیا، اور مودی کے عہد میں اپوزیشن میں رہتے ہوئے بھی وہ آر ایس ایس کو فائدہ پہنچا رہےہیں، راہل گاندھی جس اینٹی۔آر یس ایس کانگریس کو تشکیل دے رہےہیں اس کو بار بار غلام نبی آزاد جیسے سینئر لیڈران ہی سبوتاژ کرنے کی کوشش کرتےہیں راہل گاندھی کی ناکامی کی بڑی وجہ یہی ہےکہ کانگریس کے اندر موجود آر ایس ایس کے وفادار مسلسل ان کے راستے میں جال بچھاتے ہیں کنفیوژن پیدا کرتےہیں اور ہنگامہ کھڑا کرتےہیں ۔ آج سب چاہتےہیں کہ مودی کی آمرانہ سرکار کےخلاف اگر پارلیمانی اپوزیشن مضبوطی سے حرکت میں آجائے تو مودی سرکار کو کٹہرے میں لایا جاسکتا ہے، سب جانتےہیں کہ اپوزیشن کی فعالیت کے لیے کانگریس کا استحکام ضروری ہے اور بیچاری کانگریس کا حال یہ ہےکہ ایسے نازک وقت میں غلام نبی آزاد نے پارٹی کے کچھ لیڈران سے ساز باز کرکے پارٹی میں ہی الگ گروپ بنالیا ہے اور اس باغی گروہ کےذریعے پارٹی کے اندر طوفان و انتشار برپا کیا جاتاہے ۔
یعنی کہ غلام نبی آزاد جیسے لوگ درحقیقت ان مجرمین میں سے ہیں جنہوں نے گزشتہ چالیس پچاس سالوں سے بھارتی سسٹم میں سَنگھ کے پیادوں کا رول ادا کیا اور آر ایس ایس کو مضبوط کیا، ایسےمیں اب اگر ان جیسوں کو مودی سرکار کے وقت میں پدم بھوشن ایوارڈ مل رہا ہے تو یہ ان کی سَنگھی غلامی پر مہر ہے، یہ اعزاز نہیں ٹکڑا ہے، ہوسکتاہے کہ اب غلام نبی آزاد کو بھارتی حکومت کی طرف سے مزید کسی بڑے آئینی منصب پر فائز کراکے سَنگھی ایجنڈے پر کام کرایا جائے، اس طرح ہندوتوا کے اہداف پر کام بھی ہوگا اور دنیا کو دکھانے کے لیے ہندوتوا کی حمایت میں مسلم چہرہ بھی ہوگا ۔
آج خواہ پدم بھوشن مل جائے یا منصبِ صدارت لیکن غلام نبی آزاد اور ان جیسے لوگ تاریخ میں ہمیشہ ابن الوقت اور غدار کی حيثيت سے ہی یاد کیے جاتےہیں ان کی سب سے بڑی عبرتناک سزا یہ ہوتی ہےکہ ایسے غداروں کی قبر پر تہہ دل سے فاتحہ پڑھنے والا بھی کوئی نہیں ہوتا۔