تحریر: محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخاب کے نتائج نے ثابت کر دیا ہے کہ کانگریس پارٹی تاریخ کا حصہ بن گئی ہے اور بھاجپا کا یہ نعرہ کہ ہم کانگریس مُکت بھارت بنائیں گے ، کامیاب ہوتا جا رہا ہے ، بے اختیار یہ مصرعہ نوک قلم پر آگیا کہ ’’پستی کا کوئی حد سے گذرنا دیکھے‘‘
کانگریس کی اس پستی میں گاندھی خاندان کا بڑا ہاتھ ہے، اندرا گاندھی کے دنیا چھوڑ نے کے بعد کانگریس کو مضبوط قیادت نہیں ملی، راجیو گاندھی ، اندراجی کے کفن پر اکثریت کے ساتھ حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے، جس طرح کسی سرکاری ملازم کے انتقال کے بعد ہمدردی ّ(انوکمپا) کی بناء پر ملازمت دیدی جاتی ہے، راجیو گاندھی بھی وزیر اعظم بن گیے، نر سمہا راؤ کے دور میں بابری مسجد کا انہدام ہوا، پارٹی کا مستقبل اسی وقت سے اندھیرے میں جانے لگا، مسجد توڑنے کی نحوست اس پارٹی کو لگ گئی اور اس کی قیادت کرنے والے لال کرشن اڈوانی کی مٹی جس طرح پلید ہوئی وہ جگ ظاہر ہے ، لالو پرشاد یادو نے ایک بار اڈوانی جی کو پارلیامنٹ میں کہا تھا کہ آپ کبھی وزیر اعظم نہیں بن سکتے، اس لیے کہ آپ نے مسجد توڑوائی ہے ، لالو جی کی یہ پیشین گوئی سچ ثابت ہوئی۔
کانگریس کی ڈوبتی کشتی کو پار اتارنے کے لیے سونیا گاندھی نے جد وجہد کی اور راہل گاندھی کو صدر بنانے تک مسلسل لگی رہیں، اب ان کی صحت بھی خراب رہتی ہے، اس کے باوجود انہوں نے من موہن سنگھ کے ذریعہ ہندوستان کا اقتدار سنبھالا اور کامیابی کے ساتھ چلایا، لیکن راہل گاندھی کے دور میں کانگریس سمٹنے لگی اور مسلسل شکست سے دوچار ہونے کے بعد انہوں نے کانگریس کی صدارت سے استعفیٰ دے دیا، چنانچہ اس ملک گیر پارٹی کو دوسرا صدر آج تک نہیں مل سکا، سونیا گاندھی کے ذریعہ کام چلایا جا رہا ہے ۔
سونیا گاندھی نے اپنی بیٹی پرینکا گاندھی کو اتر پردیش میں کانگریس کو مضبوط کرنے کے لیے اتارا ، توقع تھی کہ وہ اس کے مردہ جسم میں روح پھونک سکیں گی ، لیکن ایسانہیں ہو سکا، ان کی ساری محنت کے باوجود اتر پردیش میں کانگریس کو منہہ کی کھانی پڑی اور وہ اپنی روایتی سیٹ رائے بریلی کو بھی نہیں بچا پائیں، اب صورت حال یہ ہے کہ کانگریس راجستھان اور چھتیس گڈھ میں حکومت میں ہے، بعض ریاستیں مثلا مہاراشٹر وغیرہ میں اشتراک کے ساتھ حکومت چلا رہی ہے جس میں اس کی دخل اندازی بھی برائے نام ہی ہے۔
کانگریس کی اس بگڑتی صورت حال کو دیکھ کر بعض قد آور لیڈران نےجن میں غلام نبی آزاد اور کپل سبل جیسے لوگ شامل ہیں، اصلاح کی آواز بلند کی اور جی 23کے نام سے ایک گروپ بنایا ، لیکن یہ لوگ گاندھی خاندان کے نزدیک مطعون اور مشکوک قرار پائے اور ان کی باتوں کو نہیں سنا گیا، شکست کے بعد جو کانگریس کی میٹنگ حال میں ہوئی اس میں بھی ان حضرات نے آواز بلند کی ، لیکن صدا بصحرا ثابت ہوئی ۔ ایسے میں زوال کے علاوہ اور کیا مقدر ہوگا۔
در اصل کانگریس عرصۂ دراز سے نہرو گاندھی خاندان کی مرہون منت رہی ہے ، جمہوری حکومت میں خاندانی نظام دیر پا نہیں ہوتا، کانگریس کو گاندھی خاندان سے باہر نکلنا ہوگا، داخلی آزادی بحال کرنی ہوگی، لیڈران کے مشورے پر کان دھرنا ہوگا، تبھی اس پارٹی کے تنِ مردہ میں جان ڈالی جا سکے گی ، ورنہ کانگریس مُکت بھارت بنانے کا بھاجپا کا خواب شرمندہ تعبیر ہوجائے گا۔