تحریر: شہاب حمزہ
8340349807
مسجد اللہ کا گھر ہے اور عبادت کی بہترین جگہ ہے ۔اس کے دروازے ہر خاص و عام کے لئے یکساں طور پر ہیں۔یہاں ذات اور برادری کی بندش نہیں۔ یہاں عمر کی پابندی نہیں۔ نوجوان ہیں تو ضعیف لوگ شامل ہیں۔ ادھیڑ عمر کے حضرات ہیں تو بچوں کی حاضری بھی مسجدوں میں لازمی طور پر رہتی ہے ۔پرانے زمانے سے ہی ہماری مسجدوں کے کچھ دستور رہے ہیں جیسے فجر اور عشاء میں صفوں کا محدود ہونا ،دیگر اوقات میں موسم کے اعتبار سے صفوں کی تعداد کا مقرر ہونا ، جب کہ جمعہ کی نماز میں انسانی سیلاب کا مسجدوں میں آ جانا مدتوں سے روایتی داستان بنی ہوئی ہے ۔ہر عمر کے لوگ اس نماز کی ادائیگی کے لیے خانہ خدا میں جلوہ افروز ہوتے ہیں لیکن یقینی طور پر زیادہ تعداد نوجوانوں کی ہوتی ہے ۔ ان میں سے اکثر نوجوانوں وہ ہوتے ہیں جو عموما اسی وقت کی نماز کے لیے مسجد جاتے ہیں اور ایک قابل ذکر بات یہ ہے کہ زیادہ تر لوگ دیر سے مسجد آتے ہیں۔ جمعہ کی نماز میں بچوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا ہے ۔عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ جمعہ کی نماز میں بچے کچھ پہلے ہی تشریف لاتے ہیں اور آگے کی صفوں میں بیٹھ کر تقاریر سنا کرتے ہیں۔دیر سے آنے والے حضرات بچوں کی اس جگہ کو اپنی ملکیت تصور کرتے ہیں اور محض عمر میں بڑے ہونے کی بنیاد پر کافی دیر سے بیٹھے ان بچوں کو پیچھے کر دیتے ہیں اور یہ بچے برسوں کی روایت احترام کرتے ہیں اور بڑوں کی تعظیم میں پیچھے کے صفحوں میں چلے جاتے ہیں۔ مزید تاخیر سے آنے والے حضرات ان بچوں کے پیچھے کرتے ہوئے صحن تک پہنچا دیتے ہیں بعض اوقات سیڑھیوں اور جوتے چپل رکھنے کی جگہ تک بھی۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے ایمانی جذبہ اگر لوگوں کا جاگ گیا اور تعداد کچھ اور بڑھ گئی تو یہ بچےچھتوں پر اور مسجد کے باہر نماز ادا کرتے نظر آتے ہیں۔ جہاں انہیں شدت کی گرمی تو کبھی گیلی زمین اور کبھی سخت سردی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ ہم میں سے تقریبا سبھی لوگ عہد طفلی میں ایسے حالات سے گزر چکے ہیں۔ جو ہم لوگوں پر بیتتی تھی یاد کریں پیچھے کرنے والوں کے لیے دل کی گہرائیوں سے بد دعا نکلتی تھی آج کے بچے ان سب میں اور بھی ماہر ہیں۔
ذرا غور کریں ان بچوں پر کیا گزرتی ہے جو وقت سے کافی پہلے مسجد میں آجاتے ہیں اور انہیں چھتوں پر نماز ادا کرنے کی نوبت آتی ہے ۔ گزشتہ جمعہ چند بچوں کو میں نے کہتے سنا کہ جمعہ کی نماز کے لیے مسجد نہ بھیجیں کیونکہ بڑے لوگ پیچھے کر کے دھوپ میں کھڑے کر دیتے ہیں ۔ باقی تمام اوقات کی نماز کے لیے ہمیں مسجد جانے میں کوئی دشواری نہیں۔ بس جمعہ گھر پر ادا کرنے کی اجازت دی جائے ان بچوں کے گارجین نے انہیں بہلا پھسلا کر مسجد بھیج دیا لیکن یہ بچے کب تک ظلم برداشت کرینگے۔ کسی نہ کسی دن بغاوت پر اتر آئیں گے اور مسجدوں کے آس پاس وقت گزار کر گھر واپس چلے جائیں گے۔ یقین جانیں یہ سلسلہ شروع ہوچکا ہے ۔ آج بچے مسجدوں سے دور ہوگئے تو ہماری عالی الشان مسجدیں بہت جلد ویران ہو جائیں گے ۔ ہمارے بچے صرف وطن اور ہمارے خاندان کے مستقبل نہیں بلکہ آنے والے وقت میں مسجدوں کے محافظ اور مسجد آباد کرنے والے ہیں ۔
ترکی کی مسجد میں اگر بچوں کی آواز نہیں سنی جاتی ہیں وہ مستقل لے کر فکر مند ہو جاتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر آج مسجد میں بچوں کی حاضری نہ ہوئی تو نہ صرف مسجدیں بلکہ ایمان اور اسلام کا مستقبل خطرے میں ہے ۔ ہم سب نے یہ مشہور واقعہ سن رکھی ہوں گی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم امامت فرما رہی ہیں اور ان کے پیارے نواسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت پر جا بیٹھتے ہیں ۔ روایت یہ بھی ہے کہ جس کے سبب رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ دیر تک سجدے میں رہنا پڑا کیوں ان معصوم بچوں کا انتظار کر رہے تھے ۔ اس واقعہ کے تعلق سے کوئی ایک روایت بھی ایسی نہیں ہے کہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ نماز دوبارہ ادا کی ہو بچوں کو ڈانٹا ہو ناراض ہوئے ہوں۔ آج ہمارے بچوں کی رسائی ممبر اور امام تک ممکن نہیں ۔ ذرا غور کریں کہ آج ہمارے بچے پیچھے کرتے ہوئے مسجدوں سے نکال دیے جاتے ہیں ۔
میں اپنی پوری زندگی میں مسجد کے نمبروں سے کسی مقرر کو یہ بیان کرتے ہوئے نہیں سنا کہ ان کے ہونٹوں پر بچوں کا ذکر ہو، بچوں کی حکایتیں ہوں ، بچوں کی حوصلہ افزائی کے الفاظ ہوں۔ مسجدوں میں بچوں کے لئے استقبالیہ الفاظ ہوں، مساجد اور بچوں کے رشتے کی کوئی گفتگو ہو ۔ کیا یہ بچوں کی بنیادی حقوق کی پامالی نہیں ؟ خطیب حضرات سے گزارش کروں گا کہ بچوں کا مسجد میں استقبال کریں بچوں کو پیچھے کرنے والی پرانی روایت اگر ہندوستان کی موجودہ سیاسی، سماجی اور اقتصادی صورتحال میں جاری رہا تو یقین جانیں مسلمانوں کا مستقبل ہندوستان کی سرزمین پر خطرے میں ہے ۔اگر مسجدوں میں بچوں کے شور وغل نہ ہوئے ان کی آواز نہ سنائی دے تو یقین جانیں مستقبل قریب میں یعنی نئی نسلوں کا نہ صرف ایمان خطرے میں ہے بلکہ اسلام بھی خطرے میں ہے۔ آج وقت کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم مسجد میں آنے والے بچوں کا احترام کریں ۔ وہ جہاں بیٹھ جائیں انہیں نہ چھیڑا جائے۔ اور اسے ایک تحریک کی شکل دی جائے ہر ذہن کو اس بات کے لئے آمادہ کیا جائے ۔خطیب حضرات اس پر اہم کردار ادا کرسکتے ہیں ورنہ اگر بچے مسجدوں سے دور ہوگئے تو بہت جلد ہماری مسجدیں ویرانیوں میں تبدیل ہوتی نظر آئیں گی۔