ازقلم: عبدالعظیم رحمانی ملکاپوری
مساجد اللہ کا گھر ہے۔ یہاں پاکی صفائی، ستھرائی، آداب، تقدس، کے ساتھ اجتماعی نظم جماعت ہوتا ہے۔مردوں، عورتوں کے ساتھ ساتھ دس سال کےبچوں پر بھی نماز فرض ہے۔ اللہ کے رسول صلی الله عليه وسلم نے
تاکید فرمائی کہ انھیں "مسجد لے جا کر با جماعت نماز پڑھنے کی تربیت دی جائے” ۔
بچے فطرتاً شرارت کرتے ہنستے، بولتے، سوالات کرتےاور چھیڑ چھاڑ کرتے ہیں ۔وہ نادان اور معصوم ہوتے ہیں ۔ابھی ہر چیز کو دیکھ رہے ہیں ۔ سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں ۔
نبی کریم صلی الله عليه وسلم نے فرمایا
"بچے تو جنت کے باغ کے پھول ہیں "
ان کی اصلاح اور تربیت کرنا ، سیکھنا اور سکھانا والدین، بڑوں اور سارے سماج کی ذمہ داری ہے۔
نفسیاتی اور جِبلّتی طریقے پر ، پیار اورشفقت سے، تمثیل، واقعہ، انعام، حوصلہ افزائیMotivation، منصوبہ بندی، تعریف ،عملی اور مشاہد ہ سے بچے جلد سیکھتے ہیں۔
ڈانٹ ڈپٹ، غصہ، سخت سست کہنا، جھڑکنا، مارنا، گھور کر کھا جانے والی نگاہوں سے اور ڈرانے سے بچے سہم جاتے احساس کمتری کا شکار اور متفّر ہوجاتے ہیں ۔منفی رویہ کی وجہ سے وہ مسجد سے دور ہونے لگتے ہیں ۔
مسجد کا ادب، تقدس، احترام دھیرے دھیرے سیکھنے سکھانے سے ان میں پیدا ہوتا رہےگا۔انھیں موقع ملنا چاہیے کہ وہ غیر محسوس طریقے سے اپنی غلطیوں کی اصلاح کرتے رہیں ۔ بزرگ مصلیان مسجد کو چاہیے کہ وہ بچوں کا استقبال کریں ۔ان کے مسجد آنے پر خوشی کا اظہار کریں۔ان کے نام، کلاس کا تعارف حاصل کریں ۔ان کے سر پر دست شفقت پھیریں۔کبھی کبھی چاکلیٹ، گولیوں سے ان کی تواضع کریں ۔ وضو کرنے، طہارت کرنے، جماعت میں ملنے، کھڑے رہنے، چھوٹی رکعت کو مکمل کرنے کا طریقہ اور سلیقہ بتائیں ۔ان کی معصوم شرارتوں کو بڑے مقصد کی تیاری کے لیے سارے مصلیان(نمازی) خوشی سےبرداشت کریں۔انھیں پیار سے سمجھائیں ۔ بعض بچے بغیر ٹوپی پہننے نماز ادا کرنے آئے تو انھیں کچھ نہ کہیں۔ اگر دو چار ہی بچّے ہوں تو انھیں بڑوں کی صف میں کھڑا کرلیں۔ یہ کہنا کے بچوں کے بیچ میں کھڑے رہنے سے بڑوں کی نماز نہیں ہوتی یا نماز خراب ہوجاتی ہے مناسب نہیں ۔دین اسلام فطری ہے اور پیارے نبیﷺ نے بچّوں کی قدردانی کی ہے۔پچھلی صف میں بچوں کی ایک صف کا الگ اہتمام کریں ۔
یاد رکھیے
اگر کوئی بچہ اوّل وقت سے آکر آگے کی صف میں ادب سے بیٹھا جماعت سے نماز پڑھنے کا منتظر ہو اور تاخیر سے آنےوالا مصلّی اس بچے کو ڈانٹ کر اور ہاتھ پکڑکر پیچھے ڈھکیل دے اور اس جگہ پر خود قبضہ کرلے تو ننھّے نمازی کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے۔ اسے اپنی حق تلفی کا شدت سے احساس ہوتا ہے۔ہم نے ایسے بچوں کو آنسوؤں سے روتے بلکتے دیکھا ہے۔
نماز شروع ہونے سے پہلے بہت نرمی اور پیار سے ان کی صف درست کرادیں۔ان ہی میں سے بڑے بچّے ان کو پیار سے سکھائیں گویا وہ ان کی کلاس کے مانیٹر ہیں،ان کے بڑے بھائی ہیں۔ممکن ہے کوئی بچہ شرارت کرتا ہو، چھیڑتا ہو، دھکا مُکّی کرتا ہو، نماز کی صف میں اِدھر اُدھر دیکھتا ہو، باتیں بھی کرتا ہو، پاس کھڑے شریف بچّے کو ستانے کے لیے پریشان کر رہاہو ،کسی کی ٹوپی سر سے اتار کر پھینک دے ،کسی نمازی کے سامنے سے گزر جائے تب بھی اسے محبت بھرےلہجے میں بار بار فہمائش کریں۔مانیٹر اسے دوسرے سمجھ داربچّے کے ساتھ جوڑی بنا کر جوڑ دیں۔امام مسجد ان بچوّں سے ملاقات کریں ۔بچے امام صاحب سے مصافحہ کرنے اور اپنی تعریف سُنے پر پُھولے نہیں سماتے۔بہت خوش ہوتے ہیں ۔ گھر جا کر والدین سے خوشی خوشی تذکرہ کرتے ہیں۔ کوئی بزرگ سر پر ہاتھ پھیر کر تعریف کرے اور پھر کچھ نصیحت کرے تو بچے اس کا ذکر بھی خوشی خوشی کرتے ہیں کہ فلاں حاجی صاحب، فلاں ماسٹر صاحب نے انہیں یہ بات یوں سمجھائ ہے۔
ایک نو عمر لڑکا اہل حدیث طریقے پر پیروں میں بڑا فاصلہ رکھے نماز پڑھ رہا تھا۔ایک کم علم مصلی اس سے بحث کرنے لگے تو اس بچےنے اپنے استاد ذاکر نائیک سے مباحثہ کر نے کی پیش کش کرڈالی تو وہ مصلی خفا ہوکر اول جلول بکنے لگے۔
ایک بچہ تو جہری نماز میں زور سے آمین کہنے کے شوق میں مسجد آتا اور خوش ہوتا تھا۔مسجد کے نمازی اسے برداشت کرتے اور کبھی منع نہ کرتے۔ایک مصلی نے اس کے آمین کہنےکا تلفظ درست کیا تو وہ بچہ نہال ہوگیا۔
جمعہ کے خطبہ یعنی بیان میں ان کے لیے بھی دوچار منٹ کی تقریر ہو۔ان کے والدین کی حوصلہ افزائی بالخصوص والدہ کی تیاری پر توصیفی جملے کہے جا ئیں ۔کبھی کبھار چھئی کے دن نفل نماز کی مشق ،مشاہداتی اور مشقی انداز میں ان سے بطور تربیت لی جائے۔ اور بروقت اصلاح کی جائے ۔۔۔۔آداب مسجد بھی سکھائے جائیں ۔ان کی غلطیوں کی موثر اصلاح بھی ہوتی رہے۔۔۔۔
ایک مسجد کے منتظمین نے انعامی مقابلہ رکھا کہ "جو بچّے چالس دن تک فجر کی نماز اسی مسجد میں پابندی سے اداکریں گے تو انھیں سائیکل انعام دی جائے گے”۔
اس سے بچّوں کودینی ترغیب ملی ۔اور پورے علاقے میں ایک خوشگوار ماحول بن گیا۔
بچوّں کے ننّھے ہاتھوں کو چاند ستارے چُھونے دو
چار کتابیں پڑھ کر یہ بھی ہم جیسے بن جائیں گے
یاد رکھیے۔۔۔ یہی معصوم نمازی جو کھیل کود، مشغلے چھوڑ کر نماز پڑھنے کےشوق میں آئے ہیں۔ اگر انھیں جھڑکا گیا، ڈانٹ پلائی گئی،( بعض مصلیان ہاتھ اٹھا کر مار بھی دیتے ہیں، ایک بااثرجاہل منتظم ، بچّوں کی معمولی شرارت پر گھونسوں سے مارتے تھے۔)تو وہ مسجدآنے سے رہے۔
ایک سروے میں نوجوان نمازیوں نے اپنے تلخ تجربات اور مسجد سے دوری کی وجوہات یہی کچھ بتائیں ہیں۔اس روش کو نہ بدلا گیاتو یہ بچے مسجد سے دور ہو جائیں گے۔پھر یہی ہوگا کہ
مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے