مولانا کواڑیسہ سے دہلی منتقل کیا جائے گا تاکہ وہ مقدمہ کی سماعت میں شرکت کرسکیں
ممبئی: 6 اپریل
ممنوع دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے تعلق رکھنے کے مبینہ الزامات کے تحت گرفتار دارالعلوم دیوبند کے فارغ مولانا عبدالرحمن (کٹکی) کی ضمانت پر رہائی کی عرضداشت پر گذشتہ دنوں سپریم کورٹ آف انڈیا میں سماعت عمل میں آئی جس کے دوران سپریم کورٹ آف انڈیا نے مولانا عبدالرحمن کو ضمانت پر رہا کیئے جانے کی بجائے ان کا مقدمہ چھ ماہ میں ختم کرنے کا خصوصی این آئی اے عدالت کو حکم دیا، عدالت نے مولانا عبدالرحمن کو اڑیسہ سے دہلی منتقل کیئے جانے کا بھی حکم جاری کیا۔
جمعیۃ علماء مہاراشٹر (ارشد مدنی) قانونی امداد کمیٹی کی جانب سے ملزم کے دفاع میں پیش ہوتے ہوئے سینئر ایڈوکیٹ تردیپ پائس نے جسٹس سنجے کشن کول اور جسٹس ایم ایم سندریش کو بتایا کہ مقدمہ کی تیز سماعت (اسپیڈی ٹرائل)ملزم کا آئینی حق ہے اور مقدمہ کی سماعت میں ہونے والی تاخیر سے اس کے حقوق سلب ہورہے ہیں لہذا ملزم کو ضمانت پر رہا کیا جائے۔
سینئر ایڈوکیٹ تردیپ پائس نے عدالت کومزید بتایا کہ مقدمہ میں ہورہی تاخیر کے لیئے نہ تو ملزم ذمہ دار ہے اور نہ ہی دفاعی وکلاء کیونکہ دفاعی وکلاء نے ملزم کی عدم موجودگی میں بھی ٹرائل چلانے کی خصوصی این آئی اے عدالت سے گذارش کی تھی اس کے باوجود مقدمہ التواء کا شکار ہے۔
سینئر ایڈوکیٹ تردیپ پائس اور ایڈوکیٹ صارم نوید نے دو رکنی بینچ کو مزید بتایا کہ ملزم پانچ سال اوردس مہینہ سے جیل میں قید ہے اور اس درمیان استغاثہ نے 62 میں سے صرف 8 گواہوں کو ہی عدالت میں پیش کیا۔ دوران بحث سینئر ایڈوکیٹ تردیپ پائس نے عدالت سے ملزم کو مشروط ضمانت پر رہا کیئے جانے کی گذارش کی۔
ایڈیشنل سالیسٹر جنرل آف انڈیا کے ایم نٹراجن نے ملزم مولانا عبدالرحمن کو ضمانت پر رہا کیئے جانے کی سخت مخالفت کی اور کہا کہ ملزم پر ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا سنگین الزام نیز غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام والے قانونی کے مطابق ملزم کو ضمانت پر رہا نہیں کیا جاسکتا ہے۔
فریقین کے دلائل کی سماعت کے بعد سپری کورٹ نچلی عدالت کو حکم دیا کہ وہ مقدمہ کی سماعت اگلے چھ ماہ میں مکمل کریں، عدالت نے دفاعی وکلاء کو کہا کہ ملزم پر سنگین الزامات عائد کیئے گئے ہیں لہذا عدالت انہیں ضمانت پر رہا نہیں کرسکتی ہے لیکن عدالت کو امیدہیکہ خصوصی این آئی اے عدالت کوشش کرکے مقدمہ کی سماعت چھ ماہ میں مکمل کرلے گی۔
واضح رہے کہ ملزم عبدالرحمن کو قومی تفتیشی ایجنسی نے اڑیسہ کے مشہور شہر کٹک کے قریب واقع ایک چھوٹے سے گاؤں سے گرفتار کیا تھا اور اسے بذریعہ طیارہ دہلی لایا گیا تھا۔ ملزم پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ ہ وہ ہندوستان میں القاعدہ کے لیئے لڑکوں کو باہر دہشت گردانہ ٹریننگ حاصل کرنے کے لیئے بھیجنے کا کام کر رہا تھا۔
اسی معاملے میں دہلی پولس کے اسپیشل سیل نے بنگلور کے مشہور عالم دین مولانا انظر شاہ قاسمی کو بھی گرفتا ر کیا تھا لیکن بعد میں خصوصی عدالت نے نا کافی ثبوت و شواہد کی بنیاد پر مقدمہ سے ڈسچارج کردیا گیا، ایڈوکیٹ ایم ایس خان نے جمعیۃ علماء کی جانب سے ڈسچارج عرضداشت پر بحث کی تھی جس کے بعد دہلی کی خصوصی عدالت نے مولانا انظر شاہ کو مقدمہ سے ڈسچارج کرتے ہوئے دیگر ملزمین کے خلاف مقدمہ شروع کیئے جانے کا حکم دیا تھا۔