تحریر: محمد احمد، ایڈیٹر: وطن سماچار
مجھے نہیں معلوم آپ قارئین کی رائے چودھری متین احمد (سابق رکن اسمبلی اورسابق چیئرمین دہلی وقف بورڈ)کے بارےمیں کیا ہے، لیکن کہتے ہیں کہ خیر کو عام کرنا چاہئے تاکہ لوگوں کو اس سے فائدہ ہواور وہ خیر دیر پا اور دور پا ہو۔چند دنوں کی بات ہے جب میں اپنے دوست کے فرزند(بھتیجے) کے ایڈمیشن کی غرض سے چودھری صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں یہاں وضاحت کردوں کہ اسکول(دہلی) کے مالک سے میرے ذاتی تعلقات ہیں ۔میں ان کی خدمت میں گڑگڑاتا رہا ۔ایک نہیں بلکہ متعدد بار اورمتعدد لوگوں سے سفارش کی درخواست بھی کی، لیکن مالک صاحب نے سب سے یہی کہاکہ داخلہ نا ممکن ہے، جبکہ ان کے اسکول میں داخلہ ہورہے تھے ، جس کے سبب میرا دوست اور اس کی بیوی مجھے ہر روز کوس رہے تھے ۔ طرح طرح کے طعنہ بھی دے رہے تھے ۔ میں یہاں ان طریقوں پر گفتگونہیں کرنا چاہتا کہ اسکول میں داخلے کیسے اور کس طرح ہو رہے تھے ۔
بہرحال میں چودھری صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ میری ان سے پہلی ملاقات تھی۔ ویسے خبروں کیلئے کئی بار ان سے فون پر بات چیت ہوچکی تھی ، لیکن بالمشافہ کبھی ملاقات کا شرف نصیب نہیں ہوا تھا۔ میں ظہر کے وقت ان کے دفتر (سیلم پور) حاضر ہوا۔ دفتر پہونچے کی بعد آفس نے اطلاع دی کہ چودھری صاحب مسجد گئے ہیں۔ کچھ ہی لمحہ کے بعد چودھری صاحب نمودار ہوئے۔ اللہ کا کرم ایسا ہوا کہ وہ اسی کرسی کے بائیں جانب والی کرسی پر تشریف فرماہوئے جس پر یہ گنہگار(راقم) بیٹھا تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد سلام کلام ہوا اور میں نے اپنا تعارف بتانے کیساتھ ان کی خدمت میں اپنی عرضی پیش کی۔ الحمد للہ انہوںنے بغیر کسی قیل و قال کے میری عرضی فورا قبول فرمالی ۔ انہوںنے فورا اسکول کے مالک سے رابطہ کیا ، لیکن متعددکوشش کے بعد بھی رابطہ نہیں ہوسکا۔
چودھری صاحب گویا ہوئے کہ آپ اپنے کام دیکھیں اور کل مجھ سے رابطہ کریں ۔ میںنے اگلے دن رابطہ کیا تو گویا ہوئے کہ ابھی رابطہ نہیں ہوپایا ہے، میں خود آپ سے رابطہ کرکے صورتحال سے آگاہ کرادوں گا۔ آپ یقین رکھیں اگر بچہ ٹیسٹ کوالیفائی کر لیگا تو اس کا ایڈمیشن ہوگا اور میں اس کی ذمہ داری لیتا ہوں۔ چودھری صاحب کی پر اعتماد گفتگو سن کر میری آنکھوں میں آنسو آگئے اور اگلی گفتگو تک کیلئے رابطہ منقطع ہوگیا۔ ابھی کچھ پل ہی گذرے تھےکہ فون کی گھنٹی بجی ۔ مسکراتے ہوئے چودھری صاحب نے نوید سنا ہی دی ۔بولے کل جا کر اسکول کے مالک سے میرے حوالہ سے بات کرلیں ۔ اگلے دن میرا دوست اسکول پہونچا ۔ استقبالیہ پر موجود شخص نے وہی قیل وقال کیا جو ماضی میں وہ کررہے تھے کہ داخلہ ناممکن ہے۔ اسی بیچ میرے دوست نے استقبالیہ پر موجود شخص کو پوری داستاں سنائی، تو ان کا لہجہ بھی نرم پڑگیا، کیونکہ آقا اورملازم کا رشتہ تو آپ قارئین کو سمجھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ خیر تھوڑی دیر کے بعد اسکول نے فارم دے دیا اور اگلے دن بچے کو انٹرنس ٹیسٹ کیلئے اسکول آنے کو کہا ۔ بچہ اپنے والد کیساتھ اسکول گیا اورانٹرنس ٹیسٹ دے کر گھر آگیا۔ ابھی بچہ گھر پہونچاہی تھا کہ پھر چودھری صاحب کا فون آیا کہ میری اسکول کے مالک سے بات ہوگئی ہے۔ بچہ نے ٹیسٹ کوالیفائی کرلیا ہے ، لیکن اس میں کچھ پینچ اب بھی ہے،تاہم آپ فکر نہ کریں، ایڈمیشن ہوجائےگا۔
پھر بچہ کے والد کو اسکول سے کال آیا کہ آپ آکر ایڈمیشن لے لیں۔ الحمد للہ !اللہ کا شکر اور چودھری متین صاحب کا احسان ہے کہ پیروں کی ہمت شامل حال رہی ۔ ہم ہارے نہیں ۔مسلسل ایڈمیشن کیلئے کوشاں رہے اور بچہ کا ایڈمیشن ہوگیا۔ اس مضمون کو لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ ایک بچہ کے ایڈمیشن کیلئے کتنی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا، تاکہ آپ یہ سمجھ سکیںکہ نسلوں کی آبیاری کیسے ہوتی ہے۔ آپ بھی ہمت نہ ہاریں لگاتار کوشش کرتے رہیں ۔ایک دن ضرور ایڑیوں کی رگڑ سے پانی ان شاء اللہ نکلے گا۔ شکریہ چودھری صاحب آپ نے فرش والے کی مدد کی، عرش والاآپ کی مدد کرے۔(آمین )اور شکریہ پیر ومرشد آپ نے اس گنہگار کو اس لائق اپنی صحبت میں رکھ کر بنایا کہ اسے گفتگو کا سلیقہ آیا ۔