ازقلم(مولانا) عبدالحفیظ اسلامی
سینئر کالم نگار و آزاد صحافی، حیدرآباد
سورہ طٰہٰ مکہ میں نازل ہوئی۔ اس میں ۸ رکوع اور ۱۳۵ آیات ہیں۔
کلمات کی تعداد ۱۶۴۱ ہے۔
اس سورہ کا زمانۂ نزول سورہ مریم کے زمانے کے قریب ہی کا ہے۔ ممکن ہے کہ یہ ہجرت حبشہ کے زمانہ یا اس کے بعد نازل ہوئی ہو۔ مذکورہ سورہ کی یہ خاص بات ہے کہ اس کی تلاوت نے حضرت عمرؓ کا دل اسلام کے لئے نرم کردیا۔
ایک دن کا واقعہ ہے کہ حضرت عمرؓ بڑے جوش کے ساتھ اپنے گھر سے نکلے ، ننگی تلوار گلے میں لٹکی ہوتی ہے۔ راستے میں کسی نے پوچھا۔ اے عمر کہاں جارہے ہو ؟ حضرت عمرؓ نے جواب دیا ’’مسلمانوں کے نبیؐ کا سر قلم کرنے جارہا ہوں‘‘۔
ان سے کہا گیا کہ پہلے اپنے گھر کی خبر لو۔ دیکھو تمہاری بہن فاطمہ اور بہنوئی مسلمان ہوچکے ہیں اور اپنے نبیؐ سے دل جان سے محبت رکھتے ہیں۔ غصہ کے عالم میں گھر لوٹ کر اپنے بہنوئی کو خوب مارنا شروع کردیا اور بہن درمیان میں حائل ہوئیں تو ان پر بھی ہاتھ چلایا۔ آخرکار بہن کا سرپھوٹ گیا اور لہو لہان ہوگئیں، بہن کی اس حالت کو دیکھ کر مزاج میں ایک طرح کی تبدیلی واقع ہوئی اور اپنی بہن سے حضرت عمرؓ نے کہا۔ بتاؤ تم کیا پڑھتے ہو ، بہن نے کہاپہلے تم غسل کرلو۔
جب حضرت عمرؓ نے غسل کیا تو حضرت فاطمہ نے اسی سورہ (طٰہٰ) کی ابتدائی چند آیات مبارکہ تلاوت کیں جس نے حضرت عمر کے اندر ایک صالح انقلاب برپا کردیا۔ آپ کا سخت دل پگھل گیا اور آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب جاری ہوگیا۔ اسی وقت رسول اللہ ا کی خدمت میں حاضر ہوکر نبی کریم ا کے دست حق پرست پر مشرف بہ اسلام ہوئے۔
علامہ اقبالؒ نے اسی واقعہ کو ذہن میں رکھتے ہوئے کہا تھا کہ :
نمی دانی کہ سوز قرأت تو
دیگر گوں گرد تقدیر عمر را
حضرت عمرؓ کے اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ سورہ طٰہٰ آپؓ کے مشرف بہ اسلام ہونے سے قبل نازل ہوچکی ہے۔ اس طرح اس کا یہ تاریخی پس منظر تھا۔ اس تاریخی حقائق کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوکر آتی ہے کہ حضرت نبی اکرم ا کی زندگی میں کیسے نازک حالات تھے۔ یعنی ایک طرف کفار کی اسلام دشمن ، دل آزاری اور بہتان تراشی ، دوسری جانب سرور کائنات ا کی شب و روز کی محنت کے باوجود مٹھی بھر لوگ جن کے اندر سعید روحیں تھیں۔ اُنھوں نے اس دعوت حق کو قبول کرچکے ہیں۔
ایسے نازک حالات میں حضرت نبی ا کو تسلی عطا کی جاتی ہے کہ یہ کلام اس قادر مطلق نے نازل کیا ہے جس کی کبریائی کے سامنے ساری کائنات سر جھکاتی ہے اور یہ بات بھی آپ پر واضح کردی گئی کہ آپ ا سے اس بات کا مطالبہ نہیں ہے کہ ہٹ دھرم لوگوں کے دلوں میں ایمان پیدا کرکے دکھایئے اور نہ ہی آپ ا کو مشقت میں ڈالنا ہمارا مقصود ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ کلام وہ ذکر ہے اس شخص کیلئے جو نصیحت کو قبول کرتا اور خدا کے خوف سے سیدھا راستہ اختیار کرنا چاہتا ہو۔ اس طرح سورۃ (طٰہٰ) میں تمہیدی کلمات کے بعد یکایک حضرت موسیٰؑ کا قصہ چھیڑ دیا جاتا ہے۔ جس ماحول میں یہ قصہ سنایا گیا ہے یہ اہل مکہ کے لئے کئی باتیں درمیان میں آتی ہیں۔
(۱) اللہ تعالیٰ نبوت (کسی اعلان عام کے ساتھ) عطا نہیںکرتا۔ نبوت تو جس کو بھی دی گئی ہے کچھ اس طرح بصیغۂ راز یا اعلان کے ساتھ دی گئی ہے جیسے حضرت موسیٰ کو دی گئی تھی۔ اب تمہیں اس بات پر تعجب کیوں ہے کہ محمد ااعلان نبوت کے ساتھ تمہارے سامنے آگئے۔
(۲) جو بات آج حضرت محمد ا تمہارے سامنے پیش کررہے ہیں یعنی (توحید و آخرت) ٹھیک وہی بات حضرت موسیٰ کو نبوت سے سرفراز فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ں کوسکھائی تھی۔
(۳) پھر جس طرح اللہ کے (آخری) نبی ا کو بغیر کسی سرو سامان اور لاؤ لشکر کے تن تنہا قریش کے مقابلے میں دعوت حق کا علمبردار بناکر کھڑا کردیا گیا ہے ، ٹھیک اسی طرح حضرت موسیٰؑ کو بھی یکایک اتنے بڑے کام پر مامور کردیا گیا تھا کہ جاکر فرعون جیسے جبار بادشاہ کو سرکشی سے باز رہنے کی تلقین کریں۔ کوئی لشکر ان کے ساتھ بھی نہیں بھیجا گیا تھا۔
(۴) اہل مکہ آج جو ظلم و ستم ، اعتراضات و الزام تراشیاں اور مکروہ ہتھکنڈے محمد عربی ا اور آپکی دعوت کے مقابلے کررہے ہیں ، وہی ہتھیار اور مکروہ حکمت عملی فرعون نے حضرت موسیٰ ں کے مقابلے میں استعمال کی تھی۔ پھر دیکھ لو کہ وہ کس طرح اپنی ساری تدبیروں میں ناکام ہوکر رہ گیا اور آخرکار کون غالب آکر رہا۔ اس سلسلہ میں خود مسلمانوں کو بھی ایک غیر ملفوظ تسلی دی گئی ہے کہ اپنی بے سرو سامانی (کے باوجود تم ہی غالب ہوکر رہو گے)۔
مولانا پیر محمد کرم شاہ صاحبؒ کی تفسیر کے مطابق یقینا آپ کا دین پھیلے گا اور کامیابی آپ کے قدم چومے گی۔ علاوہ اس کے اس سورۃ میں یہ بات بھی یاد دہانی کے طور پر رکھ دی گئی کہ جب ساحران مصر پر حق بات کھل گئی تو بلا کسی خوف کے بے دھڑک ایمان لائے اور فرعون کے انتقام کا تھوڑا بھی خوف اِن پر طاری نہ ہوا اور نہ ہی وہ بال برابر بھی اپنے ایمان کی راہ سے ہٹے۔
(۵) اس کے بعد سامری کا ذکر کرکے ان کی کوتاہ اندیشی اور بنی اسرائیل کی کم فہمی کا پردہ چاک کیا گیا کہ دیوتاؤں اور معبودوں کے گھڑے جانے کی ابتداء کس مضحکہ خیز طریقے سے ہوا کرتی ہے اور یہ کہ خدا کے نبی اس گھناؤنی چیز کا نام و نشان تک باقی رکھنے کے بھی روادار نہیں ہوتے ہیں۔ پس آج اس شرک اور بت پرستی کی جو مخالفت حضرت محمد ا کررہے ہیں وہ نبوت کی تاریخ میں کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔
یہاں پر فقہ موسیٰ ںبیان کرکے دراصل اس کشمکش پرروشنی ڈالی گئی جو حضرت محمد ا کی دعوت اور کفار کے درمیان چل رہی تھی۔ درمیان میں ایک مختصر وعظ بھی کیا گیا کہ بہرحال یہ قرآن ایک نصیحت ہے ، یاددہانی ہے۔ اگر اس پر توجہ دو گے تو اپنا بھلا کرو گے اور نہ مانو گے تو خود اپنا بُرا انجام دیکھو گے۔
سورہ کے اختتام سے قبل حضرت آدم ںکا قصہ بیان کرتے ہوئے یہ بات سمجھائی جارہی ہے کہ جس روش پر تم (دعوت حق کے دشمن لوگ) جارہے ہو یہ دراصل شیطان کی پیروی ہے جس میں خود ان ہی کا نقصان ہے۔ کسی دوسرے کا کچھ بگڑنے والا نہیں ہے۔
آخر میں نبی اکرم ا اور مسلمانوں کو بتایا گیا کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کو ان کے کفر و انکار کی پاداش میں فوری گرفت نہیں کرتا بلکہ ان کو سنبھلنے کے لئے کافی موقع دیتا ہے لہٰذا گھبراؤ نہیں۔ صبر کے ساتھ ان لوگوں کی زیادتیاں برداشت کرتے چلے جاؤ اور نصیحت کا حق ادا کرتے رہو۔
اس سلسلے میںنماز کی تاکید کی گئی ہے تاکہ اہل ایمان میں صبر ، تحمل ، قناعت ، رضا اور احتساب کی وہ صفات پیدا ہوں جو دعوت حق کی خدمت کیلئے مطلوب ہیں۔ (استفادہ کتب ، تفہیم القرآن و ضیاء القرآن)