ازقلم: محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھند پھلواری شریف پٹنہ
انتخاب کے موقع سے رائے دہندگان کو سبز باغ دکھانے کی جو روایت رہی ہے ، وہ کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ہے ، ہر پارٹی اپنے منشور اور مینی فیسٹو میں بڑے بڑے اعلان کرتی ہے، جن کے پورے کرنے کی نوبت عام طور سے نہیں آتی ہے، سیاسی لیڈران خوب اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ یہ تو وعدہ ہے اور وعدوں کا کیا کرنا ۔
ان وعدوں میں ایک بڑا وعدہ بے روزگاری دور کر نے اور نئی بحالیوں کے مواقع اور امکانات تلاش کرنے کا ہے، لیکن سب جگہ یا تو لوگ پہلے سے ہی ضرورت سے زائد ہیں یا پھر مشینوں کے استعمال کی وجہ سے افرادی قوت کی ضرورت کم ہو گئی ہے، بڑے بڑے اسٹیل پلانٹ، صنعتی کار خانے اور کمپنیوں میں پہلے کی بہ نسبت چوتھا ئی لوگوں سے کام چلا یا جا رہا ہے، جو سبکدوش (ریٹائر) ہو گیا اس کی جگہ نئی بحالیاں نہیں ہو رہی ہیں، کورونا نے چھوٹی صنعت اور غیر منظم سکٹر کے کام کو بری طرح متاثر کیا ہے اور کام بند ہوجانے کی وجہ سے بہت سارے لوگ بے روزگار ہو گیے ہیں۔
ایسے میں بیس ، پچیس لاکھ روزگار کے نئے مواقع کس طرح پیدا ہو سکتے ہیں، نئی آسامیاں کس طرح نکالی جا سکتی ہیں، یہ ایک سوال ہے جو حکمراں طبقہ کو پریشان کیے ہوئے ہے۔ وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے اپنے بجٹ بھاشن میں اس موضوع پرکہا کہ پائپ لائن کا جو کام حکومت کے زیر غور ہے اس میں اگلے پانچ سالوں میں ساٹھ(۶۰) لاکھ ملازمت کے مواقع ہیں، یعنی سالانہ بارہ (۱۲)لاکھ نوکریاں ۔ کیا یہ بے روزگار نو جوانوں کے لیے کافی ہے؟ یقینا یہ کافی نہیں ہے ، اس کے علاوہ ہر سال ایک کروڑ اسی لاکھ لڑکے اٹھارہ سال کے ہوجاتے ہیں اور ان کے ہاتھوں کو بھی کام چاہیے، زراعتی میدان میں جو لوگ کام سے لگے ہوئے ہیں،ا نہیں بھی کم تنخواہ اور مختلف زمینی وآسمانی آفتوں کی وجہ سے اس حلقہ کو خیر آباد کہنا پڑ رہا ہے، ایک اندازہ کے مطابق زراعت کے میدان سے ہٹ کر دس کروڑ لوگ دوسرے کاموں میں مشغول ہو کر اپنی معاشی ضروریات کی تکمیل کرنا چاہتے ہیں، ایسے افراد بھی بے روزگار کے زمرے میں داخل ہوجاتے ہیں، اس طرح دیکھیں توکم وبیش ہر سال بیس(۲۰) کروڑ لوگ بے روزگار ہوتے ہیں اور انہیں روزگار فراہم کرنا آسان نہیں ہے ، وزیر اعظم نریندر مودی کی تجویز کے مطابق پکوڑے اور پان بیچنے والوں کو بھی بر سر روزگار مان لیا جائے تو بھی یہ مسئلہ حل ہوتا نظر نہیں آتا ۔
اس مسئلہ کا حل یہ ہے کہ نئے پروجکیٹ شروع کیے جائیں، ایک کروڑ کی آبادی والے ہر علاقہ میں نئے شہر آباد کرنے کا منصوبہ بنایا جائے تو ان منصوبوں کی تکمیل کے لیے بہت سارے لوگوں کی ضرورت پڑے گی، یہ ضرورت ملازمت میں تبدیل ہو سکتی ہے، چھوٹی اور گھریلو صنعتوں کے فروغ کے ذریعہ بھی بڑی حد تک بے روزگاری دور کی جا سکتی ہے، لیکن اس کے لیے سرکاری سطح پر مالیات کی فراہمی کو یقینی بنانا ہوگا، جو کار خانے پہلے سے کام کر رہے ہیں ان کی پیدا واری صلاحیت بڑھا نے کے منصوبوں میں بھی بہت سے لوگ کھپ سکتے ہیں، پیداوار زیادہ ہوگی تو اس کی مار کیٹنگ کے لیے بھی اچھے خاصے افراد کی ضرورت ہوگی ،اسی طرح نئے کار خانے لگا کر ملکی پیداوار میں اضافہ کیا جا سکتا ہے ، اور جی ڈی پی (GDP)کی شرح دس فی صد تک بڑھائی جا سکتی ہے، لیکن اس میں بڑی رکاوٹ محنت سے متعلق ہندوستانی قانون ہے، جس میں مذکور شرائط مزدوروں اور بے روزگاروں کے حق میں کم اور مالکان کے حق میں زیادہ ہیں، جس کی وجہ سے کام کرنے الوں کا استحصال ہوا کرتا ہے، جن شرائط اور مطلوبہ صلاحیت کا ذکر ان قوانین میں موجود ہیں، اس کے پیش نظرایک غیر ملکی مزدور تنظیم نے یہ پیش گوئی کی ہے کہ آنے والے سالوں میں صلاحیتوں کی کمی کی وجہ سے ۲۰۳۰ء تک ہمارے پاس دو کروڑ نوے لاکھ نوکریاں متعینہ صلاحیتوں کے نہ ملنے کی وجہ سے کم ہوجائیں گی اور کام رہتے ہوئے بے روزگاری کا تناسب بڑھے گا، اگر یہ پیشین گوئی صحیح ہے تو ہمیں صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے لیے بڑے پیمانے پر تربیتی نظام کی ضرورت ہوگی ، یہ تربیتی نظام سرکار ہی چلا سکتی ہے اس لیے کہ اس میں بھی کثیر رقم کی ضرورت ہوتی ہے ۔
ان حالات میں حکومت کو خواہ وہ ریاستی ہو یا ملکی، بہت سوچ سمجھ کر طویل منصوبہ بندی کرنی چاہیے؛ تاکہ ان نا گفتہ بہہ حالات پر قابو پایا جا سکے، نو جوانوں کو روزگار نہیں ملے گا،تو وہ تیزی سے مجرمانہ کاموں کی طرف بڑھیں گے اس طرح ملک کا مستقبل تباہ ہوگا،جو انتہائی غلط ہوگا، خود ان کی ذات کے لیے بھی اور ملک کے لیے بھی۔