ازقلم: سیِّد عزیزالرّحمٰن فاضل دارالعلوم دیوبند
جو قومیں اقتدار سے دور ہوتی ہیں اور حصول اقتدار کے لیے جدوجہد اور سنگھرش نہیں کرتیں وہ اپنی آزادی کھودیتی ہیں۔
ہرانسان کو اللہ نے آزاد پیداکیا ہے انسان آزادی پسند ہوتاہے ،اسے کھانے کی پینے کی پہننے کی دین ومذہب پرعمل کرنےکی آزادی مطلوب ہوتی ہے، اگر انسان کو غلامی زیب ہے تو وہ فقط اللہ اور وقت کے نبی کی کیوں کہ وہاں اطاعت اور غلامی ہی باعثِ عزت وافتخار ہے۔
اگر آپ تاریخ پر نظرڈالیں تو آپ پر یہ بات واضح ہوجاۓ گی کہ جو قوم حکمرانی اور اقتدار سے دور ہوٸی وہ غلام بن گٸی خواہ وہ علم ومال اور حسن وجمال کے اعتبار سے کتنی ہی اعلیٰ وافضل رہی ہو ۔
سب سے پہلے میں بنی اسراٸیل کی مثال پیش کرتا ہوں کہ جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پوتے جناب یعقوب ابن اسحق علیھما السلام کی اولادیں ہیں ظاہر ہے یہ نسبی اعتبار بہت عظیم تھے قرآن ان کی بابت کہتا ہے ”وفضّلتُکم علیٰ العٰلمین“ اور میں نے تم کو عالموں پر فضیلت دی ،بنی اسراٸیل میں بے شمار علمآ و اٸمہ بھی ہوۓ لیکن جب یہی قوم بےاقتدار تھی حکومت سے دور تھی تو یہ اپنی شرافت کے باوجود فرعون اور اس کے ماننے والوں کی غلام تھی ،فرعونی ان پر مظالم کرتے تھے ان کے بیٹوں کو قتل کرتے تھے اور ان کی خواتین کے ساتھ ناروا سلوک کرتے تھے اور طرح طرح کی ان پرسختیاں کرتے
تھے۔
اصحابِ اخدود (کھاٸی والے جن کا تذکرہ قرآن کےتیسویں پارے کی سورہ بروج میں ہے ) کے زمانےمیں جو ایمان والے تھے ان کے پاس اقتدار وحکومت کی طاقت نہ تھی تو اس وقت کے ظالم بےایمان بادشاہ کے حکم پر ان سب کو آگ کی خندق میں کود کر اپنی جانیں گنوانا پڑگٸیں ۔
اللہ کے رسول ، آخری نبی سیِّدالانبیآ ٕ ﷺ کی اعلان نبوت کے بعد تیرہ سالہ مکی زندگی اپنے اصحاب اور اپنے خاندان کے ساتھ اقتدار کی طاقت نہ ہونے کی وجہ سے بڑی مظلومیت کےساتھ گزری ہے تین سال تک شِعَبِ ابی طالب میں آپ بنوہاشم کےساتھ محصور رہے
نوبت بایں جا رسید کہ آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کواللہ کے حکم پر اپنے وطنِ مالوف مکہ سے یثرب (مدینہ )کےلیے ہجرت کرنی پڑی ۔
ہسپانیہ اور برماکے مسلمان جب اقتدار سے دور ہوۓباوجودیکہ وہاں دعوت اور اصلاح اور تعلیم وتعلم کاعمل جاری تھا تو انہیں خانماں برباد ہونا پڑا ان کے بڑے بڑے مدارس منہدم کردٸیے گیے اور عالیشان مساجد مسمار کردی گٸیں ۔
جب تک مسلمان اس ملک میں حکمران رہے اگرچہ وہ عددًافقط چار سے پانچ فیصد تھےکسی مسلمان کی ماب لنچنگ کا کوٸی بھی واقعہ پیش نہیں آیا،ان کے مدارس اور مکاتب سلامت تھے،عزت وآبرو سبھی محفوظ تھی لیکن جب مسلمان حکمرانوں سے برطانوی انگریزوں نے حکومت چھین لی تو صرف مسلمان نہیں پوری ہندوستانی قوم کی آزادی چھن گٸی اور پوری قوم ان مٹھی بھرلوگوں کی غلام بن گٸی ،البتہ ملک کے کچھ لوگوں نے انگریزوں کے ساتھ سانٹھ گانٹھ کرلی اس لیے ان کے عبادت خانے محفوظ رہے لیکن مسلمان جیساکہ انہیں سے حکومت چھینی گٸی تھی مسلسل ان سے برسرپیکار رہا لیکن ایک طویل مدت تک کامیابی نہ ملنے کی وجہ سے انگریزوں کےمظالم اور ان کی سختیاں برداشت کرتے رہے سن 1947 میں ملک آزاد ہوا اور مسلمانوں کے نہ چاہتے ہوۓ بھی ملک تقسیم ہوا اس کے بعد سے اب تک اس ملک میں مسلمان اقتدار اور سیاست وحکومت سے دور ہے تو انہیں بتدریج حاشیے پرلگادیا گیا اور اب جب سن 2014 سے بی جے پی سرکار آٸی ہے تب سے مزید ان پرشکنجہ کساجارہاہے ان کی زندگی تنگ کی جارہی ہے ہرآۓ دن ان کو دوم درجے کاشہری ثابت کرنے کےلیے بھاجپاٸی نیتا اور الیکٹرانک میڈیا کی کھلے عام کوششیں جاری ہیں آج یوپی راجستھان بھوپال میں معمولی جھگڑوں پر بغیر کسی عدالتی کارواٸی کے مطلق العنان حکومتیں مسلمانوں کے مکانات کو منہدم کررہی ہیں اور سرپھرے میڈیاکے لوگ یہ کہہ کر کہ ”ان کے ساتھ اچھا ہورہا ہے “پوری بھارتی قوم کوگمراہ کررہے ہیں جب کہ مسلمانوں کے پاس مدارس ،مکاتب ،تعلیم گاہوں ،خانقاہوں ،جامعات یونیورسٹیزاور علمآ و مشاٸخ کی کوٸی قلت نہیں ہے مسلمان اخلاق وکردار کے اعتبار سے بھی ملک کی دگرقوموں سے پست ہرگز نہیں ہے۔
ایسی صورتِ حال میں مسلمانوں کی سیاسی اجتماعیت واجب وضروری ہے،(کیوں کہ جو باقتدار ہوں گے وہی محفوظ اور غالب ہوں گے) مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ مضبوط لاٸحہ عمل تیار کرکے دیگر پارٹیوں سے الاٸنس و اتحاد کرکےاپنی سیاسی قیادت کومضبوط کریں اور سیاسی میدان میں آگے بڑھیں اور حکومت میں شمولیت اختیار کریں، پیس پارٹی کے ذمہ دار اور کارکنان اس بابت بہت فکرمندہیں اورمسلسل جدوجہد اور لگاتار کوششیں کررہے ہیں بھارتی عوام کو چاہیے کہ مظلوموں کی حمایت اورنصرت میں کھڑے ہونے کے لیے پیس پارٹی کو سپورٹ کریں اورپارٹی کے قومی صدرجناب ڈاکٹرایوب سرجن صاحب کے ہاتھوں کو مضبوط کریں۔