ازقلم: ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی شمسی
سولہواں پارہ وَقَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَّکَ سے شروع ہے،اس کے تین حصے ہیں ،اس میں سورہ کہف کا بقیہ حصہ ہے ۔ اسی میں سورہ مریم اور سورہ طہ بھی ہے۔ اس کے شروع میں حضرت موسیٰ اورخضر کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ سمندر کے کنارے ایک ایسے آدمی رہتے ہیں جن کے پاس ایسا علم ہے جو آپ کے پاس نہیں ہے۔ تو موسیٰؑ علیہ السلام ان کی تلاش میں نکل پڑے، چلتے چلتے ایک سمندر کے کنارے پہنچ گئے، یہاں ان کی ملاقات حضرت خضر علیہ السلام سے ہوئی ، انہوں نے ان سے کہا کہ آپ مجھے اپنے ساتھ رہنے دیجئے ،تاکہ میں وہ علم سیکھ سکوں جو اللہ نے آپ کو عطا کیا ہے ، چنانچہ انہوں نے اس شرط کے ساتھ اجازت دیدی کہ آپ کوئی سوال نہیں کرین گے ،پھر دونوں وہاں سے روانہ ہوئے، راستہ میں تین عجیب واقعات پیش آئے ، وہ یہ کہ حضرت خضر علیہ السلام نے ایک کشتی میں سوراخ کردیا ، جس کے مالکان نے بغیر کرایہ کے انہیں بٹھالیا تھا ،دوسرا واقعہ یہ کہ انہوں نے ایک لڑکے کو ماردیا۔ تیسرا یہ کہ گاوں میں ایک دیوار گررہی تھی ،اس کو سیدھا کردیا ،جبکہ گاوں نے لوگوں نے ان دونوں کو کھانا دینے سے انکار کردیا تھا ،ان واقعات کو دیکھ کر موسیٰ علیہ السلام برداشت نہیں کرسکے اورہر ایک پرسوال کرتے رہے ۔پھر معذرت کی تو خضر علیہ السلام ان کو ساتھ لے کر آگے بڑھتے رہے، جب سفر مکمل ہوگیا ، تو خضر علیہ السلام نے موسیٰ علیہ السلام سے تینوں واقعات کی تفصیل بتائی ، جس پر وہ صبر نہ کرسکے تھے ،کشتی کے بارے میں بتایا کہ یہ کشتی کسی غریب آدمی کی تھی وہ اس سے کماکر اپنے بال بچوں کی پرورش کرتا تھا، اسکے آگے ایک ظالم بادشاہ تھا جو ہر اچھی کشتی کو غصب کررہا تھا ،میں نے اس کشتی میں عیب پیدا کردیا۔ تاکہ وہ اس کو زبردستی نہ چھینے، جہاں تک بچے کے ماردینے کی بات ہے تو اس کے والدین نیک اور صالح تھے ،اور یہ سرکش اور نافرمان تھا ،یہ بڑا ہوکر اپنے والدین کو فتنہ میں مبتلا کردیتا ،اس لئے میں نے اس کو ماردیا کہ اللہ اس کو اس سے بہتر اولاد عطا کرے ،جو اس کے ساتھ حسن سلوک کرے اور میں نے گرتی دیوار کو سیدھا کردیا کہ یہ دویتیم بچوں کی ملکیت تھی ، اس کے نیچے خزانہ پوشیدہ تھا ،اگر دیوار گرجاتی تو لوگ خزانہ کو لوٹ لیتے اوریہ دونوں یتیم بچے محروم ہوجاتے، ہم نے دیوار سیدھی کردی ،تاکہ وہ جوان ہونے کے بعد خزانہ کو نکال کر اپنے کام میں لا ئیں ، یہ تین واقعات تھے جن پر موسی علیہ السلام صبر نہیں کرسکے تھے ،چونکہ ان کو شریعت کا علم تھا ، کسی کو تکلیف پہنچانا شریعت میں درست نہیں ھے ، اس کے علاؤہ کسی کام کے عوض میں اجرت لینے کا بھی حکم ھے ، اس کے بعد ذوالقرنین کے واقعہ کو بیان گیا گیا ہے۔ یہ بڑا زبردست وسائل والا بادشاہ تھا، اس نے اپنی سلطنت کا جائزہ لینا چاہا، تو اس نے ایک مرتبہ مشرق سے مغرب کی طرف کا سفر کیا اورایک دفعہ شمال سے جنوب کے مہم پر روانہ ہوا ،اس مہم کے دوران اسکا گذر ایک قوم پرہوا، جو اس کی زبان نہیں سمجھتی تھی، پھر ترجمان کے واسطہ سے بات چیت ہوئی، ان لوگوں نے بتایا کہ ہم لوگ ایک حبشی قوم کے ظلم سے پریشان ہیں وہ قوم یاجوج اورماجوج کی ہے ،آپ ہمارے اور ان کے درمیان دیوار بنادیں تو ہم اس قوم کے ظلم سے بچ جائین گے۔ اور ہم اس کے لئے آپ کے پاس اخراجات کے لئے مال بھی فراہم کردیتے ہیں۔ تو ذوالقرنین نے کہا کہ مجھے مال کی ضرورت نہیں ہے ،اللہ نے جو مجھے دیا ہے وہی میرے لئے کافی ہے۔ البتہ تم لوگ افراد کے ذریعہ میری مدد کرو ،چنانچہ ان لوگوں نے ذوالقرنین کی مددکی ،اوراس نے تانبہ پگھلا کردیوار بنادی ،جس کی وجہ سے وہ لوگ محفوظ ہوگئے ،آج بھی وہ دیوار سدسکندری کے نام سے موجود ہے۔ اس کے بعد سورہ مریم شروع ہے۔ اس میں گیارہ انبیائے کرام کا ذکر ہے۔ ان میں سے حضرت یحیٰ ،حضرت عیسیٰ اورحضرت ابراہیم علیہم السلام کا ذکر کچھ تفصیل سے ہے۔ جبکہ آٹھ انبیائے کرام کا نام بیان کیا گیا ہے۔یا کسی کا مختصر ذکر ہے۔ وہ انبیائے کرام یہ ہیں: حضرت موسیٰ علیہ السلام ،ہارون علیہ السلام ،اسماعیل علیہ السلام ،اسحاق علیہ السلام ،یعقوب علیہ السلام ،ادریس علیہ السلام ،آدم علیہ السلام اور نوح علیہ ا لسلام ۔اس کے بعد سورہ طٰہ شروع ہے۔ اس سورہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی گئی ہے۔وہ یہ ہے کہ آپ قرآن کی تلاوت اوردین کی دعوت میں بیحد مشقت برداشت کرتے تھے ،یا راتوں میں نماز میں بہت زیادہ قیام کرتے تھے۔ جس کی وجہ سے آپ کے پاوں سوج جاتے تھے ،لوگوں کو دین کی دعوت دیتے اس کے لئے محنت کرتے ،پھر بھی لوگ ایمان قبول نہیں کرتے تھے۔ اس پر آپ کو غم ہوتا تھا ، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی گئی ،ا س میں موسیٰ علیہ السلام کے واقعہ کو بھی بیان کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو رسول بنایا۔ اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی کا شرف حاصل ہوا ،جب وہ پیدا ہوئے تو ان کو تابوت میں رکھ کر سمندر میں ڈال دیا گیا، پھر اللہ نے ان کو صحیح سالم اپنی والدہ کے پاس لوٹا دیا۔ پھر ان سے ایک غلطی سرزد ہوگئی کہ ایک قبطی یعنی فرعونی کو قتل کردیا پھر بھاگ کر مدین چلے گئے ،پھر اللہ نے ان کو رسول بنایا اورفرعون کے پاس بھیجا ،معجزات سے نوازا ۔موسیٰ علیہ السلام نے اپنے معجزات سے فرعون اوراس کے درباریوں کو اپنی رسالت کا اقرارکرالیا پھر بھی وہ لوگ ایمان نہیں لائے، تو اللہ نے فرعون کو اور اس کے ساتھیوں کو غرق کردیا۔ اس کے بعد حضرت آدم علیہ السلام اورشیطان کے واقعہ کو بیان کیا گیا ہے کہ کس طرح ابلیس نے آدم علیہ السلام کو بہکایا اور اس درخت کا پھل کھالیا جس سے اللہ نے منع کیا تھا ،تو اللہ نے آدم اور حواؑ دونوں کو جنت سے نکالدیا اورانہوں نے اللہ سے معافی طلب کی تو اللہ نے ان کی لغزشوں کو معاف کردیا۔